Dhoondne Walo Ko Dunya Bhi Nayi Dete Hain
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
اس پاک شخصیت سے محبت کرنا جو وجہ تخلیق کائنات ہے ہمارے ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ بلکہ ہمارا ایمان ہی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک ہمیں سب سے زیادہ عقیدت و محبت آپ صلی الله علیہ وسلم کی مبارک ذات سے نا ہو۔ جس کے بارے میں حدیث مبارکہ بھی ہے کہ: " کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین و اولاد اور سب سے زیادہ محبوب نا ہو جاؤں۔"
اس جہان فانی میں کئی لوگ آئے اور کئی گئے مگر وہ لوگ ہمیشہ کے لیے زندہ رہ گئے جو آقا ﷺ کے غلاموں میں متحرک ہو کر اپنا نام لکھوا گئے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا گئے۔ علامہ صاحب نے کیا خوب کہا تھا:
کی محمد ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
حضور ﷺ سے محبت کرنے والے اور ان کے نام پر اپنی جان قربان کرنے والے ہمیشہ کے لیے زندہ رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک بابا جسے لوگ سخت زبان والا کہا کرتے تھے اور انتہا پسند سوچ کا حامی کہا کرتے لیکن کیا حضورﷺ کی محبت میں اس حد تک جایا جا سکتا ہے۔؟ وہ 22 جون 1966 کو نکہ توت، ضلع اٹک میں حاجی لعل خان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ جہلم و دینہ کے مدارس دینیہ سے حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد لاہور میں جامعہ نظامیہ رضویہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ کئی برس تک اللہ کے دین کو پھیلاتے رہے اور یہ سینکڑوں علمائے اکرام کے استاد تھے۔
لاہور کی ایک مسجد کے خطیب نے اصل شہرت نومبر 2017 میں اسلام آباد کے فیض آباد چوک میں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف ایک طویل لیکن بظاہر کامیاب دھرنا دے کر حاصل کی تھی۔ اس سے قبل وہ ممتاز قادری کی سزائے موت کے معاملے میں بھی کافی سرگرم رہے تھے اور وہیں سے انھوں نے اپنی دینی سرگرمیوں کو سیاست کا رنگ دیا۔
خادم حسین رضوی صاحب کو ممتاز قادری کے حق میں کھل کر بولنے کی وجہ سے پنجاب کے محکمۂ اوقاف سے فارغ کر دیا گیا تھا جس کے بعد انھوں نے ستمبر 2017 میں تحریک کی بنیاد رکھی اور اسی برس ستمبر میں این اے 120 لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں سات ہزار ووٹ حاصل کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ جبکہ 2018 کے الیکشن میں 22، 23 لاکھ کے قریب ووٹ حاصل کیے جو کہ کسی بھی جماعت کا ایک سال سے بھی کم عرصے میں اتنے ووٹ لینا بہت بڑی کامیابی تھی۔
دست گیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نا ہوتا تیرا
وہ اندھیروں سے بھی درانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھے پہ چمکتا ہے ستارا تیرا
بقول محمد ضیاالحق نقشبندی کے علامہ حافظ خادم حسین رضوی بھی اللہ تعالیٰ اور ان کے حبیبﷺ کے حضور عرض کر رہے ہوں گے۔
یارسول اللہؐ آپؐ کا غلام حافظ خادم حسین رضوی حاضر ہے۔ یارسول اللہؐ میں آپؐ کے نام پر قربان ہوکر آپؐ کی بارگاہ میں پہنچاہوں۔ میری ٹانگیں کام نہیں کرتی تھیں لیکن میرا دل اور میری زبان مسلسل آپؐ کی عزت و ناموس کی حفاظت میں مشغول رہی، دنیا مجھے دیوانہ مولوی اور نجانے کیا کیا کہتی رہی لیکن میں نے اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق گلی گلی، قریہ قریہ، گائوں گائوں، شہر شہر غلامانِ مصطفیؐ کو بیدارکیا، یارسول اللہؐ میر ا آپؐ کے ساتھ غلامی کا رشتہ تھا، ہے اور رہے گا۔ اعوان ہونے کے ناطے اولاد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوں، میرے خلاف مقدمے ہوئے تو صرف اسی وجہ سے کہ میں دین اسلام کی بات کرتا اور دین کو تخت(حکومت) پر لاناچاہتا تھا، مجھے مدرسہ سے فارغ کیا گیا، محکمۂ اوقاف سے جبراً ریٹائر کیا گیا لیکن حضورؐ میں نے لاکھوں روپے محکمۂ اوقاف سے لینے سے انکارکر دیا جو تاحال محکمۂ اوقا ف کے اکائونٹ میں پڑے ہیں۔ میں جائیداد چھوڑ کر نہیں، عشق رسولؐ چھوڑ کر آیا ہوں، کمزور ٹانگوں اور طاقت ور زبان سے لبیک یارسول اللہؐ کہتا رہا، کہلواتا رہا۔ مجھے اپنوں اور بیگانوں نے طعنے دئیے کہ میری زبان سخت ہے، مانتا ہوں کہ زبان سخت تھی لیکن میں اہل بیتؓ و صحابہؓ کی طرح آپؐ کے عشق میں چور چورتھا۔ میں علامہ فضل حق خیرآبادیؒ، ارطغرل غازیؒ، حضرت امام مالکؒ، مولانا احمدرضا فاضل بریلویؒ اور علامہ اقبال کی طرح آپؐ کے عشق میں ڈوبا ہواتھا۔ یارسول اللہؐ میں آپؐ کے عشق کی مستی میں یہ سب کہہ دیتا تھا، غلام کی غلامی کو قبول فرمائیں۔ مجھے اللہ کے قرآن اورآپؐ کی سیرت یہاں لے آئی۔ آپؐ کی حدیث ہے کہ جو مسلمان بروز جمعہ فوت ہو، اس کی بخشش ہو جاتی ہے۔ یارسول اللہؐ مجھے آپؐ کا پڑوس چاہیے۔ یارسول اللہؐ مسلمان تقسیم در تقسیم ہو رہے ہیں، کرم فرمائیں۔ اے خاصہ خاصان رسلؐ میری غلامی قبول فرمالیں، میں نے ساری زندگی قلندرِ لاہور ی حضر ت اقبال کی شاعری سے عقیدہ توحید ورسالتؐ، محبت رسولؐ اور امت کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا درس دیاجو انہوں نے دیا تھا، یارسول اللہؐ غلام کی غلامی کو قبول فرمالیں۔
علامہ حافظ خادم حسین رضوی صاحب جس طرح حضرت علامہ محمد اقبال کی شاعری کو بیان کرتے اس دبنگ طریقے سے شاید ہی اب کوئی بیان کر سکے۔ کلام اقبال پڑھتے ہوئے جو جوش و جذبہ ان میں نظر آتا وہ دیکھنے کے قابل ہوتا۔ میں خود علامہ خادم حسین صاحب کو کلام اقبال کا بار بار حوالہ دینے کی وجہ سے سنتا کیونکہ میں بھی قلندر لاہوری حضرت علامہ محمد اقبال کے عاشقوں میں سے ہوں۔
حافظ خادم حسین صاحب نے بھی حضرت اقبال کے نقش قدم پے چلتے ہوئے ممتاز قادری شہید کا دفع اسی طرح کیا جس طرح قلندر لاہوری نے غازی علم الدین شہید کا دفع کیا تھا۔ جنہوں نے حضور ﷺ کی ناموس پر پہرہ دیا تھا۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دِکھلائیں کسے، رہروِ منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہرِ قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی، یہ وہ گِل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھُونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والے پھر علامہ اقبال ہوں یا پھر حافظ خادم حسین رضوی حضورﷺ کی محبت جب سینے میں ہو تو نئی دنیا مل ہی جاتی ہے۔ خادم حسین رضوی صاحب جیسے عاشق رسولﷺ کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گئی۔ مالک کریم ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی آخرت کا سفر آسان فرمائے۔ کیونکہ ایسی گرج دار آواز سے حضور ﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے ہر کوئی اس انداز میں تھوڑی بول سکتا ہے۔ لیکن یہ فرض ہم سب پے ہے کہ آپنے آقا و مولا حضورﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار رہیں۔
اس دنیا میں ہمیشہ کے لیے تو کسی نے نہیں رہنا اس لیے جب اس دنیا سے جائیں تو حضورﷺ کی محبت سینے میں موجود ہو۔ جو حشر کے روز ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ کا سامنا کرنے کے قابل بنائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اور اپنے حبیب رسولﷺ سے دل و جان سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے(امین)۔ بقول امام احمد رضا خان بریلوی:
اُنہیں جانا، اُنہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہِ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
اور تم پر مِرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
آج لے اُن کی پناہ، آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا