Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Column Nigari Ke Baad Shayari

Column Nigari Ke Baad Shayari

کالم نگاری کے بعد شاعری

شاعری صرف عشق و عاشقی کا بیاں نہیں بلکہ زندگی کی ہر صورت اس میں سما جاتی ہے اور شعر کہنا ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں کیونکہ یہ عطا ہے اور عطا ہر کسی پر ہونا لازم بھی نہیں۔ بہت سے لوگ شاعری کو سننا یا پڑھنا اس وقت پسند کرنے لگتے ہیں جب وہ اپنی زندگیوں میں مختلف مشکلات اور تکلیفوں سے گزرتے ہیں اور خاص کر جب اپنے اوپر گزرے ان حالات کی عکاسی انہیں مختلف شعراء کے کلام میں ملتی ہے تو وہ انہیں پڑھنا یا سننا پسند کرنے لگتے ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہر انسان میں کہیں نہ کہیں ادب پسندی ضرور موجود ہوتی ہے بس اسے اپنے اس موڈ کو ایکٹیو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

بڑے شعراء کا کلام پڑھنے سے تو آپ کا ذہن وسیع اور قلب روشن ہوتا ہے۔ لیکن آجکل تو مارکیٹ میں ہر قسم کا نیا تازہ شاعر موجود ہے اور ہر کوئی اپنی اپنی شاعری کے جوہر بکھیر رہا ہے۔ سو اسی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہ شعر کہنا عام ہوگیا ہے اور ویسے بھی شعر کہنے پر کون سا پابندی ہے میں نے بھی چھوٹے موٹے شاعروں میں اپنا نام لکھوانے کا ارادہ کیا ہے۔ جس طرح ٹوٹے پھوٹے کالم لکھتا ہوں اسی طرح ٹوٹی پھوٹی شاعری کرنے کی بھی ٹھان لی ہے۔ حال ہی میں میں نے ایک تازہ کلام لکھا جس میں میرا ایک شعر ہے کہ:

ہمارے جیسے شاعروں سے اب گزارا کرو
اب کہاں ڈھونڈنے سے فیض و میر ملتا ہے

کہنے کا مقصد یہی ہے کہ آج کل مارکیٹ میں جو شاعر چل رہے ہیں انہیں سے گزارا کریں بڑے نام تو اب دوبارہ آ کر شعر لکھنے سے رہے لہذا مارکیٹ میں ہمیں بھی برداشت کریں۔ میرے چند تازہ اشعار پیش خدمت ہیں۔۔

قید میں رہ کے بھی جو حق کی بات کرتا ہے
ایسا شخص دبانے سے کہاں دبتا ہے

لگا دو اس کے بیانات پر بھی پابندی
نظریہ کہاں میاں مارنے سے مرتا ہے؟

اُسے کہو کہ محبت کی بات تو نہ کرے
بے وفاؤں کے منہ سے یہ لفظ جچتا ہے؟

اس کی تصویر دکھاؤ یا پھر حوالہ دو
اُسی کے ذکر سے تو دل میرا سنبھلتا ہے

کسی کو خاص رکھنا بھی کیا مصیبت ہے
چلا نہ جائے کہیں روز دل جھجکتا ہے

اُنہیں خوش دیکھ کے جو لال پیلا ہونے لگا
مجھے کمبخت حسد کا مریض لگتا ہے!

شرم سے ڈوب مرو ان گنت مسلمانوں
غزہ تو آج بھی کوفہ کو یاد کرتا ہے!

حاصل ہونا بھی تمنا ہی کی رسوائی ہے
مزہ تَبھی ہے جو تو در بدر بھٹکتا ہے

یہ جس طرح سے للکارا ہے اس نے باطل کو
یقین مانو علیؑ کا فقیر لگتا ہے

ہمارے جیسے شاعروں سے اب گزارا کرو
اب کہاں ڈھونڈنے سے فیض و میر ملتا ہے

مجھے خبر ہے کہ وہ بھی نہیں رہے گا عمر
سوچتے جس کو تیرا روز و شب گزرتا ہے

جیسے میں نے پہلے ذکر کیا کہ شاعری میں ہر موضوع ہی سما جاتا ہے اسی طرح میرے اس کلام میں بھی مختلف موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے جیسے کہ پہلے دو اشعار میں اس قیدی اور اس کی بہادری کا ذکر ہے جس کے چرچے اس وقت صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہیں اور کوئی مانے یا نہ مانے وہ اس وقت پاکستان کا سب سے مقبول ترین سیاسی رہنما بھی ہے۔

اسی کے ساتھ ساتھ محبوب کا ذکر جس کے بغیر کلام مکمل ہی نہیں ہوتا اس کی بے وفائی کا ذکر، اسے دیکھنے کے لیے بے چین ہونے اور اسے کھونے کے ڈر کا ذکر موجود ہے اس کے ساتھ ساتھ غزہ میں ہونے والے ظلم پر مسلمانوں کی بے حسی کا ذکر اور شیر خدا مولا کائنات مولا علیؑ کی بہادری کا ذکر جیسے مختلف موضوعات اس کلام میں زیر بحث لائے گئے ہیں۔ جو کہ میری ایک معمولی سی کاوش ہے۔

کچھ عرصہ پہلے جب ایک وکیل جو کہ ایک سیاسی جماعت سے بھی وابستہ ہیں جن کا نام انتظار حسین پنجوتا ہے ان کا تعلق سرگودھا سے ہے اور انہیں نامعلوم افراد کی طرف سے اٹھایا گیا اور اور ان پر بے انتہا تشدد کیا گیا جس کے بعد انہیں چھوڑ بھی دیا گیا تو ان پر ہونے والے ظلم اور ان کی بے بسی پر میں نے چند اشعار لکھے:

انتظار تیرے زخم نمایاں تو ہیں مگر
ہرگز نا سمجھنا کوئی مرہم لگائے گا

باغی کو بغاوت کی اجازت نہیں یہاں
جو بھی کرے گا تیری طرح تھر تھرائے گا

اس ملک میں بوٹوں کی حکومت ہے عزیزم
کسے شوق اذیت ہے کون سر اٹھائے گا

واللہ یہ نظام بہت مایوس کر چکا
پر امید کا جگنو پھر بھی جگمگائے گا

یہ خواب ہی رہے گا ہمارا تہمارا دوست
کب آ کے کوئی نئی شمعے جلائے گا

چوتھے شعر میں امید کا جگنو اس لیے جگمگا رہا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ شاعر ہو یا جو بھی لکھنے والا ہو اسے ہمیشہ اچھے کی امید رکھنی چاہیے کیونکہ مشکلات تکلیفیں یہ زندگی کا حصہ ہیں ان کے بغیر زندگی کی بقا ممکن نہیں لیکن انسان کو ہر وقت پر امید رہنا چاہیے۔

میرا ایک شعر ہے جو میرا پسندیدہ بھی ہے:

غموں نے چاک کیا ہے تمام عمر مگر
یہ خوش مزاجی ہمارے وجود سے نہ گئی

اس میں بھی امید کی بات ہی کی گئی ہے۔ کیونکہ زندگی نام ہی تکلیفوں اور غموں کا ہے لیکن انسان کی اصل اسی میں ہے کہ وہ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور خوشی خوشی انہیں قبول کرے اور مالک کریم کی رضا میں راضی رہے۔

پچھلے دنوں جب ایک سیاسی جماعت کے کارکنان کو ریاست کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو اس پر میں نے ایک شعر لکھا جو کہ حکمران وقت کے لیے تھا:

امیر شہر یوں اپنوں کا خوں بہانے پر
تجھے شرم تو نا آئی دِیے بُجھانے پر

کیونکہ احتجاج جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ لہذا جب احتجاج کرنے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تو جمہوریت کا یہ چراغ خود بخود بجھ جاتا ہے۔

اسی سیاسی جماعت کے احتجاج سے چند دن پہلے جب اس سیاسی جماعت کے لیڈر کو جو کہ قید میں ہے کو رہا کرنے کی خبر گردش کرنے لگی تو حکومت وقت خوف زدہ نظر آئی جس پر میں نے کہا:

یہ کس کی آمد سے خوف طاری ہے شہر بھر میں
اگر وہ آ کر تمہاری ضد کو فنا کرے گا تو کیا بنے گا؟

مختلف موضوعات کو سمیٹتا ہوا میرا ایک اور کلام پیش خدمت ہے جو میرے بالکل ہی ابتدائی کلام میں سے ہے:

وہ تصور جو سب پے بھاری تھا
جان و دل سب جس پے واری تھا

جس کے ہونے سے باغ باغ تھا دل
جس کا ہونا بھی اک خماری تھا

وہ جو بولے تو پھول جھڑتے تھے
اس کا لہجہ بہت معیاری تھا

وہ جو دیانت کی بات کرتا ہے
وہ بھی تصویر کا پجاری تھا

ان کو کہتے ہیں تم مقرر ہو
بات کرنے سے جو بھی عاری تھا

لوگ جھوٹوں کا قرب چاہتے ہیں
سچ کو لکھنا تو اک بیماری تھا

میں تو سمجھا تھا آپ جانتے ہیں
عشق کا مطلب یہاں خواری تھا

وہ جو چُپ چاپ قید میں تھا کھڑا
اس کو احساس وفاداری تھا

مسئلہ درپیش روزگار کا ہے
اُس کو چھوڑو وہ کاروباری تھا

میں بھی جمہور کا محافظ ہوں
حافظ جی کا خطاب جاری تھا

یوں علامہ کو پڑھ کے لگتا ہے
ان کا مقصد میری بیداری تھا

اور آخر میں میرا سب سے پسندیدہ شعر جو کہ ایک لحاظ سے میرا پہلا شعر بھی ہے جو کہ حضور نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ کی پیاری صاحبزادی جنت کی خواتین کی سردار حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہ کی شان اقدس میں ہے:

اس شخص کی قسمت ہے کس قدر خراب تر
جو تجھ سے گریزاں ہے یا فاطمہ زہراءؑ

کالم نگاری اور شاعری میرے نزدیک دونوں ہی ادب کی دو مختلف شاخیں ہیں۔ ادب کی اس ایک شاخ یعنی کالم نگاری سے وابستہ ہوئے تو کافی عرصہ گزر گیا مگر ادب کی اس دوسری شاخ یعنی شاعری سے وابستگی نئی نئی ہے لہذا نیک تمناؤں کی درخواست ہے۔ اللہ تعالی اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ کے صدقے سب کا حامی و ناصر ہو۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari