27wi Aaini Tarmeem Ki Halchal
ستائیسویں ترمیم کی ہلچل

ملک میں ستائیسویں ترمیم کی آمد آمد ہے، امریکہ کو بنے تقریباً 250 سال ہو چکے ہیں اور اُنہوں نے اپنی آزادی کے تقریباً 10 سال بعد آئین کو باقاعدہ تشکیل دے دیا تھا جس میں اب تک 27 ترامیم ہو چکی ہیں جبکہ پاکستانی آئین کی تشکیل کو ابھی 52 سال ہی گزرے ہیں کہ بات 27 ویں ترمیم تک پہنچ چکی ہے۔ وہاں 250 سال میں بھی 27 ترامیم عوامی اور ملکی مفادات کے پیش نظر کی گئیں جبکہ یہاں ہر حکومت اپنے مفادات کے پیش نظر آئین میں ترمیم کرتی نظر آتی ہے۔
27 ویں ترمیم کی بازگشت 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے فوراً بعد ہی شروع ہوگئی تھی اور سیاسی اور صحافتی حلقوں میں وقتاً فوقتاً اس پر گفتگو بھی ہوتی رہتی تھی لیکن ابھی تک سب کچھ اندرونِ خانہ ہی چل رہا تھا۔ بلی تو تھیلے سے تب باہر آئی جب بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ٹویٹر پیغام میں پوری قوم کو اطلاع دی کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں نون لیگ کا وفد صدر آصف علی زرداری اور میرے ساتھ ملاقات کے لیے آیا اور 27 ویں آئینی ترمیم پر حمایت مانگی۔
اس ٹویٹ کے بعد پورے مین سٹریم میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر 27 ویں آئینی ترمیم پر بحث جاری ہے اور اب تو ذرائع سے اطلاعات آ رہی ہیں کہ 27 ویں آئینی ترمیم کو سات نومبر کو سینٹ آف پاکستان میں پیش کیے جانے کا امکان ہے جس کو 10 نومبر تک پاس کروانے کی کوشش بھی کی جائے گی جبکہ چھٹی والے دن بھی اجلاس جاری رکھنے کی اطلاعات آ رہی ہیں یعنی حکومت 26 ویں آئینی ترمیم کی طرح 27 ویں آئینی ترمیم کو بھی جلد از جلد منظور کروانے کی خواہش مند ہے۔
ان اطلاعات سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ پیپلزپارٹی بھی اس ترمیم کی منظوری کے لیے پیش پیش ہے کیونکہ ترمیم کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے اور وہ پیپلزپارٹی کے بغیر ممکن نہیں لہذا بلاول بھٹو کا یہ کہنا کہ اس ترمیم کی حمایت کا فیصلہ چھ نومبر کو ہونے والی پارٹی کی سی ای سی میں ہوگا محض ڈرامے بازی کے سوا کچھ نہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُس ذوالفقار علی بھٹو کے جانشین جو آئین کو بنانے والا تھا اور جس کی پارٹی کو آئین اور جمہوریت کا محافظ سمجھا جاتا تھا جس نے خود اور بعد میں اس کی بیٹی بے نظیر نے جمہوریت کے لیے اپنی اپنی جان دی اُسی کے جانشین آج اُسی آئین کی شکل بگاڑنے میں پیش پیش ہیں۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہی اٹھارویں ترمیم جس کا کریڈٹ زرداری صاحب اور پیپلز پارٹی لیتے نہیں تھکتے اُس میں بھی تبدیلی زیر غور ہے اور ذرائع کے مطابق ممکنہ ڈرافٹ میں آرٹیکل 160 کی شق 3A میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے مجوزہ ترمیم کے تحت صوبوں کے وفاقی محصولات میں حصے کے حوالے سے آئینی ضمانت ختم کرنے کی تجویز شامل کی گئی ہے۔ لہذا سوچنے کی بات ہے کہ پیپلزپارٹی کس منہ سے اس ترمیم کی حمایت کرے گی لیکن افسوس صد افسوس کہ اگلی باری کی چاہ میں یہ سب بھی پیپلزپارٹی کو منظور ہی ہوگا یا شاید اپنی تھوڑی بہت ساکھ بچانے کے لیے اس میں تبدیلی کروا لیں یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔
اِسی طرح عدالتی ڈھانچے میں بڑی تبدیلی کرکےآرٹیکل 191A اور نیا آرٹیکل شامل کرنے کی تجویز بھی ڈرافٹ میں شامل ہے، جس کے مطابق نئے ڈھانچے کے تحت ایک آئینی عدالت یا سپریم آئینی عدالت قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مجوزہ ترمیم کے تحت آئینی تشریحات کے حتمی اختیار میں تبدیلی کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹ کے ججز کی منتقلی سے متعلق آرٹیکل 200 میں بھی ترامیم شامل ہیں۔
المختصر یہ کہ عدلیہ کی ساکھ کو جس قدر تباہ کیا جا چکا ہے اُسے مزید تباہ کرنے کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے۔ انصاف مہیا کرنا کسی بھی ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتا ہے لیکن افسوس یہاں ریاست ہی اپنی مرضی کے قانون بنا کر اپنی مرضی کا انصاف مہیا کرنے پر بضد ہے۔ معذرت کے ساتھ ہمارا عدالتی نظام اس قدر تباہ ہو چکا ہے کہ کسی بچے سے بھی اگر آپ پوچھیں تو وہ بھی آپ کو یہی کہتا دکھائی دے گا کہ پاکستانی عدالتوں سے انصاف لینا ناممکن عمل ہو چکا ہے۔
اس کے علاوہ آرٹیکل 243 میں ترمیم بھی ڈرافٹ کا حصہ ہے جو سب سے اہم تبدیلی سمجھی جا رہی ہے جو افواج کی کمانڈ سے متعلق ہے۔ آرٹیکل 213 کے تحت چیف الیکشن کمشنر کے تقرر میں تبدیلی کی تجویز بھی ڈرافٹ کا حصہ ہے۔
بہرحال اس طرح کی ترامیم کرکے حکومت اپنی ہی ساکھ کو نقصان پہنچاتی جا رہی ہے جس کی حکومت میں آنے کی بنیاد پہلے سے ہی مشکوک ہے۔ یا یہ اس سوچ میں ہیں کہ پہلے کون سا عوام کے ووٹوں سے ہم حکومت میں آئے ہیں جو ہمیں حکومت میں لائے ہیں اگر اُن کے ساتھ ہمارے حالات ٹھیک رہے تو ہمیں اگلی دفعہ بھی حکومت میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس حکومت کی لا علمی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ آج سے ٹھیک 10 روز قبل وسیم بادامی کے پروگرام میں سینیئر وفاقی وزیر چوہدری احسن اقبال جو کہ مسلم لیگ نواز کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ابھی تک کسی ترمیم کے لانے پر غور نہیں کیا جا رہا اور اس کے ٹھیک دس دن بعد بلاول نے ٹویٹ کر دیا کہ حکومت ہم سے 27 ویں ترمیم پر مدد مانگ رہی ہے۔
اپوزیشن اتحاد اور تحریک تحفظ آئین کی مشاورتی کمیٹی نے بھی بیٹھک کی ہے اور یہ اعلامیہ جاری کیا ہے کہ ہم اِس آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہیں اور اس کی بھرپور مخالفت کریں گے لیکن ان کی مخالفت کیا ہی کر سکتی ہے جس طرح 26 ویں آئینی ترمیم منظور کروا لی گئی اور بندے پورے ہو گئے اُسی طرح یہ بھی منظور ہو ہی جائے گی لیکن اس سے جمہوریت کا نقصان ہوگا آئین کا نقصان ہوگا عدلیہ مزید تقسیم در تقسیم ہو جائے گی لہذا یہ ترمیم کرنے والوں اور کروانے والوں کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے کہیں پھر یہ نہ ہو کہ دیر ہو جائے اور یہ 25 کروڑ عوام آخر کار یہ ظلم سہتے سہتے ایک دن غفلت کی نیند سے بیدار ہو جائے اور بغاوت پر اتر آئے اور حبیب جالب کی طرح کہنے لگے کہ "ایسے دستور کو صبح بے نور کو ہم نہیں مانتے ہم نہیں جانتے"۔

