Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Safwan
  4. Urdu Imla Par Chand Talib Ilmana Tahaffuzat

Urdu Imla Par Chand Talib Ilmana Tahaffuzat

"اردو املا" پر چند طالبعلمانہ تحفظات

یہ تحریر باقاعدہ مضمون یا تبصرہ نہیں بلکہ کچھ عرصہ پہلے ایک درسی کتاب کے لیے لکھے گئے مواد میں سے جنابِ رشید حسن خاں کی "اردو املا" پر کچھ نکات جمع کیے گئے ہیں۔ خاں صاحب کی یہ کتاب اپنے موضوع پر سب سے جاندار کتاب ہے جو نہایت وقیع مباحث کو سمیٹے ہوئے ہے۔ دنیائے اردو اِس خدمت پر اُن کی ہمیشہ احسان مند رہے گی۔ اردو کا کوئی طالب علم "اردو املا" سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔

"اردو املا" بہت عرصے سے مطالعے میں ہے اور ہر موقع پر دستگیری کرتی ہے۔ تاہم مجھے اِس میں موجود بعض بحثوں کے کچھ نکات پر طالبعلمانہ تحفظات ہیں جو میں نے کتاب میں جگہ جگہ پنسل سے یادداشت کے طور پر لکھے ہوئے ہیں۔ اِن کا اجمالی ذکر کرتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کتاب ردِ عمل میں لکھی گئی تھی۔ اِس "ردِ عمل" کی تفصیل ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی "املا نامہ" میں شامل اُن کے ابتدائیے میں موجود ہے۔ اِسے وہیں ملاحظہ کرلیا جائے۔ مختصر یہ کہ یہ کتاب اردو الفاظ کے املا کے بارے میں خاں صاحب کے ذاتی رجحانات اور اُن تجاویز کا مدلل مجموعہ ہے جنھیں منظور کرنے سے مجلسِ ترقیِ اردو ہند کی املا کمیٹی نے معذرت کرلی تھی۔ مختلف اوقات میں اِس کمیٹی کے صدور ڈاکٹر سید عابد حسین، ڈاکٹر عبدالعلیم اور ڈاکٹر شمس الرحمٰن فاروقی رہے جب کہ ڈاکٹر نارنگ اِن تجاویز کو مرتب کرتے رہے۔

"اردو املا" کی ضخامت میں اصولی بحثوں کے ساتھ ساتھ مثالی الفاظ کی فہرستوں کا بھی بہت کردار ہے۔ خاں صاحب نے پوری کوشش کی کہ درست املا کی مثالیں دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ الفاظ بطور نمونہ پیش کیے جائیں تاکہ طلبہ کی رہنمائی میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ تاہم اِن فہرستوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اِن میں عام استعمال میں آنے والے الفاظ کی نسبت کتابی اور علمی الفاظ زیادہ ہیں۔ چنانچہ یہ کتاب علمی ضروریات کے لیے زیادہ کارآمد ہے۔ یہ بات عام طور سے مشہور ہے کہ خاں صاحب نے "فرہنگِ آصفیہ" اور "نور اللغات" کی مدد سے مثالی الفاظ کی فہرستیں بنائی تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ یہ فہرستیں بناتے وقت ڈاکٹر حسن الدین احمد کی "اردو الفاظ شماری" کو بھی پیشِ نظر رکھتے تو یہ کام بہتر ہوجاتا۔ واضح رہے کہ میں قدیم اور کلاسیکل الفاظ کو فہرستوں میں شامل کرنے کی مخالفت نہیں کر رہا ہوں، اِن الفاظ کے درست املا کا معلوم ہونا بھی برابر ضروری ہے۔

"اردو املا" میں اردو میں دخیل الفاظ کے املا پر بحثیں موجود ہیں اور اِس کے لیے اصول سازی بھی کی گئی ہے، لیکن بطورِ مثال پیش کیے گئے الفاظ کی تعداد بہت کم ہے۔ یاد رہنا چاہیے کہ دخیل الفاظ میں مثلًا انگریزی کے الفاظ کو سلیبل کی بنیاد پر صرف املا میں توڑا جاسکتا/جاتا ہے اور یہ ہرگز ضروری نہیں کہ تلفظ لکھتے وقت بھی سلیبل پر ہی توڑا جائے۔ سلیبل اور فونیم میں فرق ہے۔ فونیم آواز کی سب سے چھوٹی اکائی ہوتا ہے چنانچہ تلفظ لکھتے وقت لفظ کو فونیم پہ توڑا جاسکتا ہے۔ لفظ میں موجود سلیبلز اور فونیمز کی تعداد کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مثلًا انگریزی کے الفاظ chat اور light میں تین تین فونیم ہیں اور سلیبل صرف ایک۔ دخیل الفاظ کی جو بعض مثالیں"اردو املا" میں موجود ہیں اُن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خاں صاحب سلیبل اور فونیم میں جوہری فرق نہیں کر پائے۔ ہر زبان کا اپنا نظامِ صوت ہوتا ہے اور ہر نظامِ تحریر کا اپنا کینڈا۔ یہی وجہ ہوئی کہ انگریزی کی صرف نقالی کی وجہ سے لفظ seminar کی آنکھوں سے مانوس اردو نقلِ حرفی "سیمینار" کو "سی می نار" جیسی تجویز پر اصرار کیا گیا اور اِس معاملے میں سماجی لسانیات سے رہنمائی نہ لی گئی۔ اِس بات کو واضح طور پہ سمجھنا چاہیے کہ لفظی اور ابجدی دونوں طرح کے نظامہائے تحریر کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے اردو تحریر کا ہر لفظ ایک مستقل فلمچے (Visual Gestalt) کے طور پر شناخت ہوتا ہے چنانچہ کسی لفظ کی مانوس صورت کو اپنے بنائے ہوئے کسی اصول کی بھینٹ چڑھاکر اُس کا مثلہ نہیں کرنا چاہیے۔

"اردو املا" میں الفاظ کے املا اور تلفظ دونوں پر وقیع بحثیں موجود ہیں لیکن بعض بحثوں میں خاں صاحب لفظ کی ملفوظی شخصیت اور صوتی شخصیت کی تحریری صورت میں انصاف نہیں کرسکے ہیں۔ وہ عوام کو اِس بات کی اجازت دیتے تو محسوس ہوتے ہیں کہ ایک جگہ کے لوگ مثلًا لفظ رمضان میں ض کو z اور دوسری جگہ والے z کے بجائے dh کی صوتی شخصیت دے لیں، لیکن بحث کے دوران وہ مادۂ اصلی کی بحث چھیڑ دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ املا کی بحث کو تلفظ سے خلط کر دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ جیسے جمال کو گمال، نجیب کو نگیب، حاجی کو ہاگی، حج کو ہگ اور باوا کو بافا بولنے والے بھی بیشتر عرب اصل کے لوگ ہیں اور اُن کا یہ لہجہ و تلفظ عالمی طور پر تسلیم بھی کیا جاتا ہے ویسے ہی رمضان کا تلفظ اگر رامادھان کرنے پر اصرار ہے تو اِس کا تلفظ رمجان، رمڈھان اور ڑمجان، سبھی درست ہیں کیونکہ رواج میں ہیں۔ بایں لحاظ میں سمجھتا ہوں کہ "اردو املا" کا نام "اردو املا و تلفظ" ہونا چاہیے تھا۔

"اردو املا" اور "املا نامہ" میں بنیادی فرق سماجی لسانیات کے اصولوں کو تسلیم کرنے اور تسلیم نہ کرنے کا ہے۔ اول الذکر کتاب میں رواجِ عام کو تسلیم نہ کرنے کا مزاج غالب ہے جب کہ آخرالذکر میں عوام کی رائے کو تسلیم کرنے کا رجحان ہے۔ مثلًا اِسی لفظ "جب کہ" کو لیجیے۔ الفاظ کو جوڑ کر اور منفصل لکھنے کے بیان میں خاں صاحب اِسے منفصل لکھنے کی تجویز دیتے ہیں جب کہ نارنگ صاحب اِسے جوڑ کر لکھنے کی تجویز دیتے ہیں، کہ اِسے رواجِ عام میں ایسے ہی لکھا جا رہا ہے۔ جو لوگ اِن دونوں کتابوں سے مس رکھتے ہیں وہ عام طور سے تسلیم کرتے ہیں کہ خاں صاحب کا مزاج تجویز دینے کا نہیں بلکہ حکم نافذ کرنے کا ہے، نارنگ صاحب کے ہاں ایسا نہیں ہے۔ نارنگ صاحب عوام میں چلن دار صورتِ املا پر "غلط" کا حکم لگانے کے بجائے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ وہ صورت اہلِ علم کی نگاہ میں بار پا جائے۔

سماجی لسانیات کے اصولوں کو تسلیم کرنے میں پس و پیش ہی کی وجہ سے "اردو املا" کی بعض بحثیں جامد اور قبولِ عام سے ہٹی ہوئی ہیں جب کہ "املا نامہ" کے پہلے ایڈیشن میں موجود بعض تجاویز کو دوسرے اور پھر تیسرے ایڈیشن میں واپس لے لیا گیا ہے۔ یوں"املا نامہ" میں موجود تجاویز وہ ہیں جو عوام زیادہ تر اختیار کیے ہوئے ہے۔ زبان عوام کی ملکیت ہے نہ کہ چند خواص کی۔ یاد رہنا چاہیے کہ King's English ماضی کا وقار ہوچکی ہے۔

بعض لوگ مندرجۂ بالا گفتگو سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ میں رشید حسن خاں کی مخالفت کر رہا ہوں اور گوپی چند نارنگ کی حمایت۔ اُن کے اِس نتیجے کو غلط ثابت کرنے کے لیے یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ "اردو املا" اور "املا نامہ" دونوں کے مصنفین سے طویل عرصہ رابطے میں رہنے سے اِن دونوں کی جو "فنکاری" مجھ پہ کھلی اُس کا ذکر کر دوں۔ املا کے بارے میں جنابِ رشید حسن خاں جس غیر مقبول اور اجنبی تجویز کو نافذ کرانا چاہتے ہیں تو فوراً ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کا نام داغ دیتے ہیں۔ اُدھر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کسی لفظ کے املا کی جس چلن دار شکل کو اہلِ علم کے گلے سے اتارنا چاہتے ہیں تو "سماجی لسانیات" کا میزائل فائر کر دیتے ہیں۔ عوام منہ کھولے کبھی اِدھر دیکھتی ہے کبھی اُدھر، چنانچہ کرتی وہی ہے جو اُس کی مرضی ہو۔ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق!

Check Also

Fahash Tarkari

By Zubair Hafeez