Mard o Aurat Ikeeswen Sadi Mein
مرد و عورت اکیسویں صدی میں
اکیسویں صدی عیسوی اور موجودہ ہزاری شروع ہوئی تو ہر ادارے کی طرح اقوامِ متحدہ نے بھی اپنے جواز اور وجہِ وجود کو منوانے کے لیے بہت سی سرگرمیاں شروع کیں۔ اِن میں دیگر کئی عنوانات کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق اور تجارت وغیرہ کا بہت غلغلہ اٹھا۔ مجھے یاد ہے کہ غالبًا 2003ء میں جینڈر/سیکس ایکوالٹی کے لیے "صنفی برابری" کی متبادل اصطلاح اردو میں پہلی بار سامنے آئی اور مختلف چیزوں کی تجارت کو تمام دنیا میں یکساں مواقع دینے کی باتیں چلنے لگیں۔ اِسی طرح عورتوں کے حقوق کے ضمن میں خواتین جنسی کارکنان کے معاوضے کو قانونی بنانے اور Prostitute کے بجائے Carol Leigh کی 1978ء میں بنائی گئی اصطلاح "سیکس ورکر" کا بے محابہ استعمال شروع ہوا (اِس کے لیے متبادل اردو اصطلاح نہ بن سکی)۔
اِنہی دنوں کسی نے یہ درفنطنی چھوڑی کہ اقوامِ متحدہ یہ کام اِس لیے کر رہی ہے کہ اسلامی ممالک اور خصوصًا سعودی عرب میں عورتوں اور شراب کا کاروبار کھلے عام چلنے لگے تاکہ اسلام کو مٹایا جاسکے۔ دیکھتے دیکھتے یہ خیال بیشتر لوگوں کے دماغوں میں گھر کر گیا اور زبانِ خلق پہ جاری ہوگیا۔ ماہنامہ "الشریعہ" گوجرانوالہ میں حقوقِ انسانی سے متعلق بنیادی معلوماتی مضامین شائع ہونے لگے۔ یہ پہلا اردو جریدہ تھا۔ جس میں اِن موضوعات پر سنجیدہ علمی گفتگو ہونے لگی۔
میں نے کسی مضمون میں لکھا کہ کم سے کم اقوامِ متحدہ کے کسی ڈاکومنٹ سے اِس دعوے کا ثبوت پیش کیا جائے کہ عورتوں کے حقوق کی آڑ میں عورتوں اور شراب کے کاروبار کو اسلامی ممالک میں پھیلانا اقوامِ متحدہ کا مقصد ہے۔ میں نے لکھا کہ ہم لوگ انگریز کو صرف اُس کی قومیت کی وجہ سے برا کہنے کے مرض میں مبتلا ہیں اور مغربی دنیا سے آمدہ ہر اصطلاح کو اپنے معنی پہناتے ہیں۔ مثلًا ہمارے ہاں سیکولرزم اور لبرلزم کے خالص اپنے ایجاد کردہ معنی و مصادیق ہیں۔ جن کا شاید دور دور بھی کوئی تعلق اُن معنی سے نہیں ہے۔ جو اِن اصطلاحات کے ایجاد کرنے والوں کے ہاں لکھا ہوا ہے۔ سنجیدہ لوگوں نے اِن باتوں کی تائید کی۔
آزادیِ نسواں مارچ بھی ایک ایسا ہی مظہر ہے۔ جو ہمارے ہاں کثرتِ تعبیر کا شکار ہوکر اپنے اصل معنی کھو چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے 8 مارچ کا دن عالمی یومِ نسواں (International Women's Day) کے طور پر مقرر کر رکھا ہے۔ ہر سال اِس دن کا ایجنڈہ بھی اقوامِ متحدہ خود مقرر کرتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ویب سائٹ سے دیکھ لیجیے یا محمود فیاض کی کتاب "مرد و عورت اکیسویں صدی میں" میں ص-33 پر دیکھ لیجیے، 1996ء سے لے کر 2023ء تک 25 برس کے عالمی یومِ نسواں کے ایجنڈے لکھے ہیں۔ اِن میں مثلًا عورت امن کی دہلیز پر (1997ء)، عورت اور انسانی حقوق (1998ء)، عورتیں اور ایڈز (2004ء)، عورتوں کو توانا کرنا انسانیت کو توانا کرنا ہے (2015ء)، وغیرہ وغیرہ، شامل ہیں۔
ایک نظر اِس پوری فہرست پر ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے مقاصد میں نہ تو اسلامی ممالک میں کہیں پر فری سیکس کو رواج دینا موجود ہے اور نہ یہ ایجنڈہ جات اُن واہیات نعروں کو سپورٹ کرتے ہیں جو ہمارے ہاں فیمنزم کی آڑ میں فیمنسٹ عورتیں لگاتی اور لگواتی ہیں۔ ذرا توجہ سے دیکھیے تو ہمارے ہاں کے عورت مارچ کے نعروں میں بھی وہی سوچ کارفرما ہے۔ جس کا ذکر اوپر ہوا، یعنی "ہم لوگ انگریز کو صرف اُس کی قومیت کی وجہ سے برا کہنے کے مرض میں مبتلا ہیں اور مغربی دنیا سے آمدہ ہر اصطلاح کو اپنے معنی پہناتے ہیں۔ " یقین کیجیے کہ اِن امراض کا کوئی علاج نہیں ہے۔ خود کردہ را علاجے نیست۔ اِن نعروں نے ہماری عورتوں کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ کر دیا ہے اور حقوقِ نسواں جیسے سنجیدہ ترین موضوع کا مذاق بنوا دیا ہے۔
آج مجھے ڈاکٹر نویدہ کوثر کی عنایت سے محمود فیاض کی کتاب "مرد و عورت اکیسویں صدی میں" ہمدست ہوئی تو اُس وقت سے اِسے پڑھے جا رہا ہوں۔ ڈاکٹر نویدہ کوثر خود بھی ایسے موضوعات پہ پوسٹیں لکھتی ہیں جو عورتوں کی زندگی کے اُن پہلوؤوں پہ روشنی ڈالتے ہیں جنھیں لکھنا عام رواج میں نہیں ہے اور نہ کوئی اُن پہ لکھنے کا حوصلہ ہی کرتا ہے۔ ایسے موضوعات پہ لکھنے والوں کو عام طور سے مسوجنسٹ کی گالی دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر نویدہ کوثر مجھے بھی لکھنے کے مختلف موضوعات دیتی رہتی ہیں اور اُن پہ لکھنے پر اکساتی رہتی ہیں۔
اِس کتاب میں بیشتر چیزیں وہی ہیں جو فیسبک پر خوب پڑھی گئی ہیں اور اُن پر خوب بحث ہوچکی ہے۔ اکیسویں صدی نے دنیا میں جو نیا پن پیدا کیا ہے، یہ کتاب اُس کے اُن اثرات اور نتائج پر بحث کرتی ہے جو ہمارے سماج میں تیزی سے سرایت کر رہے ہیں اور جن کو روکنے یا جن کو واپس کرنے کا کوئی سامان یا طریقہ ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ جدیدیت اور جدید طرزِ زندگی کو برا بھلا کہنے، پدر سری معاشرے کو دی جانے والی گالی، خاندانی نظام کو دیے جانے والے کوسنے، غیرت کو منفی جذبہ باور کرانے والی لائی لگیت، فیمنزم اور مسوجنی، وغیرہ، پر زندہ تحریریں اور کیس سٹڈیز اِس کتاب میں شامل ہیں۔ ہر تحریر اپنی جگہ ایک مکمل موضوع ہے چنانچہ کتاب کو کہیں سے بھی شروع کیا جاسکتا ہے۔ یہ تمام موضوعات وہ ہیں جو اِس وقت ہمیں درپیش ہیں۔ ہمیں سے مراد یہ کہ ہم میں سے ہر ایک کو اِن میں سے کوئی نہ کوئی مسئلہ یا تو پیش آچکا ہے یا پیش آنے والا ہے، اور اب کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے یہ مسئلہ ختم نہیں ہونے والا۔
کتاب کی زبان بالکل عام فہم ہے اور کوئی ایسا لفظ یا محاورہ اِس میں نہیں ہے جسے سمجھنے میں مشکل ہو۔ پورے متن کی تفہیم نہایت سہل ہے اور اِس میں اردوئیت لانے کے زور میں کوئی دور از کار اصطلاحات استعمال نہیں کی گئیں۔
کتاب کی پیشکش کے بارے میں البتہ کچھ تحفظات ہیں۔ فانٹ اور لے آؤٹ ذرا سی کوشش سے بہتر کیا جاسکتا تھا۔ کچھ جگہ پر پروف کی اور ٹیکسٹ سیٹنگ کی چوک ہوگئی ہے مثلًا صفحہ 41,42,87,وغیرہ۔ نیز چونکہ مضامین کے موضوعات متنوع ہیں۔ اِس لیے ایک مناسب طوالت کا اشاریہ آخرِ کتاب میں ہونا ضروری ہے۔ امید ہے آئندہ ایڈیشن میں اِن تحفظات پہ توجہ کی جاسکے گی۔
اِس نہایت اہم کتاب کی اشاعت پر سرکار پبلشرز ملتان کا بہت شکریہ۔ یہ کتاب ہر پڑھنے والے کی میز پر رکھی ہونا ضروری ہے۔