Diya Jalta Raha
دیا جلتا رہا
پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد کا ناول "دیا جلتا رہا" (دوسرا حصہ) ایک طویل بیانیہ ہے جس میں مکالمہ بہت کم ہے اور جو ہے وہ بھی ایسا کہ بیانیے میں تعطل یا اتار چڑھاؤ نہیں لاتا۔ اِس متن میں بعض الفاظ ایسے ملے جو پہلے کبھی نہیں پڑھے تھے۔ معلومات اور خبروں کو متن کا حصہ بنانے کے بجائے عوامی زبان پر چڑھے الفاظ اور ناموں کو، درست تناظر کے ساتھ، متن میں سمونے کی وجہ سے یہ ناول historic fiction نہیں بلکہ history & culture ہے۔ جہاں کہیں فکشن لایا گیا ہے اور اُس میں جو مافوقی الفطرت اور اساطیری مواد ہے وہ بھی بے حد نپا تلا اور بقدرِ اشکِ بلبل ہے۔
داستان گوئی اور قصہ پن بھی بطور catalyst لایا گیا ہے لیکن مقدار میں بہت کم اور اثرات بالکل ہومیوپیتھک انداز کے۔ مختلف کرداروں سے اُن کی زبان میں کہلوائے گئے الفاظ و خیالات اُن کے کلچر اور ذہنی افق کی وسعت کے مطابق ہیں۔ جنس کا بیان باوقار ادبی پیرائے میں ہے۔ ناول کا locale جنوبی پنجاب کا ایک ڈیڑھ سو مربع کلومیٹر کا علاقہ ہے اور کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ کسی بھی کردار کی زبان یا سوچ میں اِس کے بارے میں ہلکاپن در آیا ہو۔
ڈاکٹر صاحب ملازمت کے لیے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے منسلک رہے چنانچہ ناول کے سارے کردار حقیقی ہیں اور حقیقی زندگی کے روزمرہ مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ ہر ناول کی ریڈایبلٹی کی سطح سماج کے مختلف طبقات کے لیے مختلف ہوتی ہے۔ یہ ناول عام قاری کے بجائے اِس علاقے کے پڑھے لکھے اور خصوصًا یونیورسٹی سے کسی بھی درجے میں منسلک لوگوں کی توجہ زیادہ کھینچے گا۔ ناول کی ہیروئن رانیا ایک بھرپور نسوانی کردار ہے جو بدلتے جنوبی پنجاب کی پڑھی لکھی کم وسیلہ عورت کے کئی پہلوؤوں کو بہت خوبصورت رنگوں میں paint کرتا ہے۔
اِس ناول میں کئی intellect layers ہیں جن میں سے ایک اُس سیاسی چپقلش کا بیان ہے جسے مقتدرہ نے پچھلے کچھ سال میں پیدا کیا اور ابھارا ہے۔ اداروں کی یہ آپسی مفاداتی جنگ قوم کے ذہنوں اور صلاحیتوں کو تقسیم کیے ہوئے ہے۔ اچھے کردار، سماجی انصاف اور میرٹ جیسی خوبیوں کے بجائے دھرنے اور ماب کلچر کے فروغ پانے پر نالانی اِس ناول کا ظاہر بظاہر امتیاز ہے۔
میں بہت بچپن سے ڈاکٹر شفیق احمد صاحب کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ اردو مجلس بہاول پور کے اجلاسوں میں ایک تنقیدی canon کا رول ادا کرتے رہے ہیں۔ اِس تنقید میں پاکستانیت اور اسلامیت سے بے لوث جڑاؤ اُن کا امتیاز ہے۔ لیکن یہ تنقید صرف برائے تنقید نہ تھی بلکہ تخلیق بھی اُن کا میدان تھی اور اُن کی شاعری اکثر و بیشتر سامنے آتی رہتی تھی۔ لیکن مجھے کبھی یہ گمان نہیں گزرا تھا کہ وہ ناول بھی لکھیں گے۔ معلوم ہوا کہ یہی بات ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب بھی کہہ چکے ہیں۔ بے حد خوشی ہوئی۔
امید کرتا ہوں کہ جنوبی پنجاب سے پھوٹا یہ ناول بڑی ریڈرشپ لے گا اور جلد ہی اِس پر ڈرامہ یا فلم بھی بنے گی۔