1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Rabia Khurram
  4. Sinf e Nazuk Se Sinf e Aahan Ka Safar

Sinf e Nazuk Se Sinf e Aahan Ka Safar

صنف نازک سے صنف آہن کا سفر

کسی نے ایک سوال پوچھا کہ اگر کسی وجہ سے شوہر گھر کا کفیل نہ رہے تو کیا بیوی کی محبت ختم ہو جاتی ہے؟جذباتی تعلق کی تبدیلی، کفالت سے معذوری کی وجہ پر منحصر ہے۔اگر تو کفالت سے معذوری محض کام اور ذمےداری سے جی چرانا ہے تب تو ایسا مرد نہ صرف محبت سے محروم ہو گا ،بلکہ اپنی عزت اور مقام سے بھی ہاتھ دھوئے گا نہ صرف اپنی بیوی کی نظر میں بلکہ ہر اپنے سے متعلقہ ہر فرد بشمول اولاد، والدین، سسرال، احباب، معاشرہ اور بہن بھائی۔

لیکن اگر کفالت سے معذوری کسی مجبوری کی وجہ سے ہے مثلا نوکری کا چلا جانا اور یہ عارضی معذوری ہے تو امید واثق ہے کہ بیوی نہ صرف اپنے شوہر کی مجبوری سمجھے گی بلکہ اس کی ہمت بھی بندھائے گی اور اس کا ہر ممکن ساتھ بھی دے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس کا شوہر ایک ذمےدار مرد ہے جو محض حالات کے ہاتھوں مجبور ہے۔ دو نوکریوں کے درمیانی عارضی بےروزگاری کے دور میں ایک سمجھدار خاتون خانہ اپنی بچت اور معاملہ فہمی سے اس دور کو خوشگوار بنا سکتی ہے۔گو ناسمجھ خاتون اسے انتہائی اسٹریس فل پیریڈ میں تبدیل بھی کر سکتی ہے۔

لیکن ہر دو صورت میں شوہر سے محبت کا رشتہ تبدیل ہونے کا کوئی امکان مجھے نظر نہیں آتا۔ سوا اس کے کہ خاتون لالچی فطرت کی ہو اور اس کی محبت محض کاروبار ہو۔تیسری صورت جس میں کفالت سے معذوری کی مدت غیر معینہ ہو مثلا روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے گھر پڑ جانا، کسی قانونی مسئلے کی وجہ سے جیل چلے جانا یا جیسے غیر قانونی تارکین وطن بہت عرصے تک بیک ہوم رابطہ نہیں رکھ پاتے یا کسی طبی وجہ مثلا شوہر کا کسی شدید جسمانی عارضے میں مبتلا ہونا، ایسی کسی بھی صورت میں خاندان کے کرداروں کی ری ارینجمنٹ ناگزیر ہو جاتی ہے۔ گھر کا کفیل تبدیل ہو جاتا ہے۔ کسی اور ذمےدار مرد کی عدم موجودگی میں عموما یہ ذمےداری تعلیم یافتہ، بہادر اور ہنرمند خاتون خانہ کے کندھوں پر آ پڑتی ہے۔

اس صورت میں شوہر سے بیوی کی محبت نہیں بدلتی لیکن فیملی ڈائنامکس تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کفیل خاندان کا سربراہ ہوتا ہے۔ سو اگر کفالت کی ذمہ داری عورت کے کندھے پر آ جائے تو قوت فیصلہ اور اقتدار کا توازن بھی عورت کی طرف جھک جاتا ہے اس صورت میں مرد اپنی اہمیت میں کمی کو عورت کی سردمہری یا محبت میں کمی سے تعبیر کرتا ہے جبکہ اصل حقیقت یہ نہیں ہوتی۔ جب مرد کہتا ہے کہ "تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روز گار کے" تب تو اسے درست مانا جاتا ہے لیکن اگر اسی کیفیت کا اظہار خاتون کہ طرف سے ہو جائے تو اسے بھی درست ہی مانا جانا چاہیے۔

اس خاتون خانہ نے اب مرد کا کردار اپنا لیا ہوتا ہے نہ صرف خاندان کی معاشی کفالت اس کی ذمےداری بن جاتی ہے بلکہ شوہر جو صحت، عہدے، آمدنی کے ساتھ ساتھ، " گھر بھر کی طاقت" کی علامت سے بھی محروم ہوتا ہے اس کی جذباتی ٹوٹ پھوٹ کی کفالت بھی اس کی بیگم کا فرض ہوتی ہے۔ مشرقی گھرانوں میں اولاد خصوصا کم عمر بچے ماں کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ گھر کے بڑے ستون جیسے بھی دباو کا سامنا کر رہے ہوں اپنی اولاد کے سر پر سکھ بھری چھاوں قائم رکھنا دونوں کی فطری خواہش ہوتی ہے۔

خاتون خانہ جو اب گھر بھر کی کفیل بھی ہوتی ہے وہ اپنی اولاد کے فرائض سے بھی پہلو تہی نہیں کر سکتی کیونکہ شوہر پہلے ہی جسمانی و جذباتی طور پر اس پر منحصر ہے اور بچے ناسمجھ ہوتے ہوئے بھی گھر کے تبدیل شدہ ماحول سے لامحالہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی جسمانی جذباتی اور تعلیمی تمام کیفیات تبدیل ہو جاتی ہیں۔شوہر کے ایکسیڈنٹ یا بیماری سے پہلے اگر گھر کی ذمےدار بیوی تھی اور شوہر کمانے کا ذمےدار تھا تو بعد کے حالات میں بیوی گھر بار، گھبرائی ہوئی اولاد، بیمار مجبور پریشان شوہر اور معاشرے کے بدلتے رویوں کے سامنے تن تنہا ڈٹ جاتی ہے۔

اگر ایسی خاتون کو سسرال اور میکے کا بھرپور ساتھ میسر رہے تب یہ مشکل ترین دور پھر بھی کافی آسان ہو جاتا ہے لیکن اگر ایسا ساتھ میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں اس صنف نازک کو واقعتا "صنف آہن " بننا پڑتا ہے۔ غیر جذباتی، ٹھوس اور مضبوط کردار کی حامل، بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال اور اپنے اٹھائے ہر قدم کے نتیجے کو برداشت کرنے کی ہمت رکھنے والی صنف آہن کہ جس کے لیے صنف آہن کی ترکیب بھی نازک و کمتر محسوس ہوتی ہے۔ ایسی خاتون کی محبت کو اس کے احساس ذمہ داری و وفاشعاری سے محسوس کیا جانا چاہیے۔

ماضی میں کینڈل لائٹ ڈنر پر شوہر سے رومان پرور گفتگو کرنے کے خواب دیکھنے والی خاتون خانہ، حالات کے تبدیل شدہ ابواب میں اپنے شوہر کے لیے بہترین علاج، بچوں کے لیے پیٹ بھر روٹی اور اچھی تعلیم کا انتظام کرنے میں اپنا رومانس بھلا دیتی ہے۔ یہ تبدیلی ہرگز، ہرگز اس کے شوہر کی اہمیت میں کمی کا اعلان نہیں ہے بلکہ محض حالات کی تبدیلی کا منطقی نتیجہ ہے۔بس یوں سمجھیے کہ جب شوہر کفیل نہیں رہتا تو وہ مرد خانہ بن جاتا ہے اور عورت سربراہ خانہ۔

اسے ذمےداری کی تبدیلی جانیے محبت کی نہیں شوہر اگر نہ رہے تو اس کا کردار اپنانے والی بیوی نہ صرف اپنے شوہر سے مذید اور شدید تر محبت میں مبتلا ہوتی ہے بلکہ اس کی نہایت احسانمند بھی ہوتی ہے کہ کس کڑی دھوپ سے مرحوم نے اسے اور بچوں کو بچا رکھا تھا۔ لیکن چونکہ پوسٹ وفات کے حوالے سے نہیں تھی اس لیے یہ چیز اس میں مینشن نہیں کی گئی۔بعض شوہر طلاق کے بعد بھی کفالت سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں جبکہ شرعی طور پر بچوں کی ذمےداری داری انہی کی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں ایسا سابقہ شوہر اپنی سابقہ بیوی اور فراموش کردہ بچوں کی نفرت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

لیکن پوسٹ میں پوچھا گیا سوال اس حوالے سے بھی نہیں تھا اس لیے اسے آرٹیکل کا حصہ نہیں بنایا۔

Check Also

Neo News Ke 9 Saal

By Najam Wali Khan