1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Rabia Khurram
  4. Aaj Ka Paigham

Aaj Ka Paigham

آج کا پیغام

آج کا پیغام اپنی بہنوں کے نام جن کے بچے سکول یا مدرسے جانے کی عمر میں ہیں۔ اچھی بہنوں ماں بن جانے کے بعد ہماری زندگی میں پہلا نام اولاد کا ہوتا ہے۔ ان کی صحت سلامتی، تعلیم، تربیت اور حفاظت ہمارا نصب العین بن جاتا ہے۔ ہم سب بلاتفریق اپنی اولاد کو اپنے حالات کے مطابق بہترین خوراک، خوبصورت لباس اور اعلی ٰتعلیم دلوانے کی خواہش رکھتی ہیں۔ اس کے لیے ہمیں روزانہ کے خرچے میں سے بچت کرنی پڑے یا اپنی ضروریات پس پشت ڈالنا پڑیں۔ ہم ہر ممکن قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتیں، یہی مامتا ہے یہی بےلوث وفا کا رشتہ ہے۔

ہم اپنی اولاد کی خدمت کرتے کرتے کبھی اپنی ذات کو فراموش کر بیٹھتی ہیں تو کبھی اپنے شریک حیات کی۔ جبکہ اولاد انہی دونوں شریک حیات کی نور نظر ہوتی ہے۔ عموماً ہمارے روایتی گھرانوں میں یہ ایک عام روٹین ہے اور زوجین اس روٹین پر قانع نظر آتے ہیں۔ آج کی اس تحریر کا خاص مقصد اولاد کے حوالے سے ماں کے فرائض پر بات کرنا ہے۔ لیکن چلتے چلتے اتنا کہتی چلوں کہ ماں صحت مند ہو گی تو اولاد کا خیال رکھ سکے گی اور بیوی صاف ستھری، صحت مند، چاک و چوبند ہو گی تو شوہر صاحب کا دل بھی گھر میں لگا رہے گا۔ اس تھوڑا کہے کو بہت جانیے، اب واپس پلٹتے ہیں اولاد کے موضوع کی طرف۔

جس طرح آپ بچے کے لباس کے لیے مختلف دکانیں اور برانڈز چھانٹتی ہیں اور خوب گھوم پھر کر کسی لباس پر مطمئن ہوتی ہیں۔ جیسے بچوں کی خوراک کے لیے صفائی کا انتظام رکھتی ہیں، تازہ پھل سبزی اور گوشت کا اہتمام رکھتی ہیں کہ کہیں بچہ پرانا کھانا کھا کر بیمار نہ پڑ جائے اور بیمار ہونے کی صورت میں اچھے سے چائلڈ اسپیشلسٹ کے پاس لے کر بھاگتی ہیں۔ مہنگی دوا لے کر دینے سے بھی نہیں ہچکچاتیں کہ میرا بچہ/ بچی جلدی سے تندرست ہو جائے۔ جب تک بچے کا بخار ختم نہیں ہوتا ماں کا دل بھی پھنکتا رہتا ہے۔

اسی طرح اپنی اولاد کے لیے بہترین سکول تلاش کیجیے سکول کی ریپوٹیشن پر غور کیجیے۔ تعلیمی نتائج کے علاوہ سکول میں پہلے سے پڑھنے والے چند بچوں کی تعلیمی قابلیت جانچیے۔ اور ان کی تربیت اور مینرز پر بھی غور کیجیے۔ بچوں سے ان کے اساتذہ کے متعلق سوالات کیجیے کہ استاد کا رویہ کیسا ہے۔ پڑھاتے کیسا ہیں؟ سمجھاتے کتنا ہیں؟ مارتے تو نہیں اور اگر مارتے ہیں تو کتنا اور کس طرح؟ استاد کی مار میں بڑے انعام چھپے ہوتے ہیں! لیکن مار مار میں بھی فرق ہے۔ سو بچے سے کھل کر سوال کیجیے کہ سبق یاد نہ کرنے کی صورت میں سزا کیا دی گئی۔

اسی طرح بچے کو سمجھایے کہ سکول میں بچے نے کسی ویران کلاس روم میں یا کسی ویران گوشے میں اول تو جانا نہیں دوم تنہا تو بالکل بھی نہیں جانا۔ سکول میں موجود دیگر ملازمین سے ایک محفوظ فاصلے کی ہدایت بچے کو دی جائے۔ گیٹ کیپر انکل یا ٹیکسی /وین ڈرائیور انکل کے ساتھ بھی بچے کا تنہا وقت گزرنے مت دیجیے، اپنے بچوں کے ہم جماعتوں کے ساتھ رویے اور تعلق پر نظر رکھیے۔ دوست اسکول کے ہوں یا محلے کے، اپنے بچوں کو ان کی دوستی کی حد سمجھانا ماں کا کام ہے۔

دوستوں کے ساتھ الگ کمرے میں بیٹھنے مت دیں یا کم از کم دروازے کھلے رکھیں اور درمیان میں نظر ڈالتی رہیں کہ بچوں کی مصروفیات کیا ہیں۔ اسی طرح ٹیوشن پر جانے والے بچے کو اسکول کی ہی طرح خود چھوڑنے اور لینے جائیں۔ کبھی کبھار وقت مقررہ سے پہلے بھی ٹیوشن والی باجی کے گھر اچانک چکر لگا کر اپنی بچے کی روٹین چیک کرنے میں کوئی حرج نہیں، بہتر ہے کہ بچے کو گھر پر خود پڑھائیں یا گھر پر ٹیوٹر کا انتظام کریں۔ یہی تمام احتیاطیں قاری صاحب کے حوالے سے بھی ذہن میں رکھیں۔

اگر ماں کی تجوید درست ہے تو قرآن مجید کی ابتدائی تعلیم آپ خود اپنے بچوں کو دیں۔ کوشش کریں کہ بچوں خصوصا ًبیٹیوں کو سہیلیوں کے گھر جانے کی عادت نہ پڑے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو بچی کی سہیلی کی ماں آپ کی سہیلی بننی چاہیے تاکہ ماں اور بیٹی اکٹھی اپنی سہیلی کے گھر جائیں۔ گھر میں بچوں کو الگ سے ٹی وی ٹیبلٹ یا موبائل پر بلاروک ٹوک کچھ بھی دیکھنے کی اجازت نہیں ہونا چاہیے گھر کے وائی فائی پر چائلڈ لاک لگا کر رکھیں۔

Check Also

Adliya Aur Parliament Mein Barhti Talkhiyan

By Nusrat Javed