Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Kashif Hussain
  4. Iqbal Ki Nazam Immamat Par Tabsara

Iqbal Ki Nazam Immamat Par Tabsara

اقبال کی نظم امامت پر تبصرہ

اقبال کی شاعری دنیا کی بڑی شاعری روایت میں خاص مقام رکھتی ہے۔ اقبال اپنی اردو شاعری کے تیسرے مجموعہ کلام، ضرب کلیم، کو ذہنی عصر حاضر کے خلاف جنگ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ وہ دور گزشتہ صدی کی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ جب عالمی جنگ کی خطرات منڈلا رہے تھے اور دنیا جنگ و جدل، وسائل پر قبضے کی ہوس اور اختیار کے داخلی اور خارجی اثرات کی وجہ سے شدید مایوسی کا شکار تھی۔

دنیا کے کثیر حصے پر بیرونی حکومتوں نے مقامی لوگوں کی زندگی عذاب کر رکھی تھی۔ احمد جاوید کہتے ہیں کہ اس وقت مایوسی کے جزیرے میں کچھ لوگ امید کے پرچم لے کر کھڑے تھے جن میں اقبال کا پرچم بہت بلند تھا۔ اقبال کی فکر کی بلندی ان کی کلام میں نمایاں ہے۔ ہم جیسوں کی کیا اوقات ہے کہ اقبال پر لکھیں۔ ہمیں تو لکھنے سے قبل صاحبان محرم راز کے اشارے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے وگرنہ چھپنے کے لالے پڑ جاتے ہیں۔

وجاہت مسعود نے چند الفاظ میں ہمارا المیہ بیان کیا ہے۔ خوے غلامی میں پختہ ہوے 25 کروڑ۔ اقبال کے کلام کی روح اور اس کی گہرائی کو پانے کی لیے ہمیں تو کچھ نوری سال درکار ہیں۔ ہم تو کلام اقبال پڑھ کر ذہن میں کوندتے تخیل، احساسات و خیالات اور مشاہدات کو قلم بند کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ہمارا چٹکی برابر علم تو کسی کام کا نہیں چناچہ علم نافع اور بصیرت کا سلیقہ جاننے کی خاطر مربی سے رجوع کرتے ہیں۔ مربی اقبال کے کلام کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مسلم امہ اس بیمار یا زخمی کی مانند ہے جسکی جیب میں مرہم موجود ہے مگر وہ بھول چکا ہے اب ہر جگہ مارا مارا پھرتا ہے۔

مربی اقبال کی نظم امامت کا ذکر کرتے ہیں۔

ضرب کلیم کے پہلے حصے کا نام ہے۔ اسلام اور مسلمان۔ ان کی شاعری کا بنیادی حصہ اسلام اور مسلمانوں کو ہی موضوع بناتا ہے۔ ضرب کلیم میں ایک نظم امامت کے عنوان سے موجود ہے۔ اسکے پانچ اشعار ہیں۔ جس میں امامت کا انفرادی اور اجتماعی فہم ایک لڑی کی طرح جڑا ہوا نظر آتا ہے۔

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے

ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاظر و موجود سے بیزار کرے

موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے

دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلمان کو سلاطین کا پرستار کرے

اقبال چاہتے ہیں کہ خدا ہم پر بھی یہ بھید کھول دے اور راز جاننے والا بنائے اور ہم سچے امام کو پہچان سکیں۔ جو ہمیں دور حاظر کے شرور سے آگاہی دے اور ان سے دور بھی لے جائے۔ جو ہمیں دنیا کے فتنوں کو سمجھنے کے قابل کر دے اور دنیا کو سب کچھ سمجھ لینے سے بچائے اور آخرت کی فکر میں مبتلا کر دے۔ جب ہمارے معاملات کھولے جائیں گے۔ کیسے کیسے چہرے ہوں گے۔ پھر ہم مادی دوڈ سے نکل آئیں گے۔ ہمیں اپنا صحیح فائدہ اور نقصان سمجھ آ جائے۔ تاکہ ہم زندگی کے مادی پہلوں کی حقیقت جان لیں اور علم نافع کے ذریعے غیر مادی چیزیں آسان ہو جایئں اور پھر خدا کے قرب کو پانے کا تجربہ کر سکیں اور جان لیں کہ وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ جیسا کہ سورت ق میں ذکر آتا ہے۔

اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں (آیت 16 جزوی)

اس کی قربت ہمیں ہمارے اصل نفع اور نقصان سے آشنائی دیتی ہے اور انسان اپنی اصلاح کی فکر میں ڈوب جاتا ہے اور حقیقت کا ادراک اسے زندگی کی عارضی ہونے کا یقین دلا دیتا ہے اور خدا کے مقرب لوگ اس سے ملاقات کے متمنی ہو جاتے ہیں اور اس اجڑے دیار میں ان کا دل نہیں لگتا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب "انسانیت موت کے دروازے پر" میں کئی ممتاز لوگوں کی موت سے قبل کے واقعات اور لمحات تحریر کیے ہیں اور وہ لوگ یہ احساس کرتے ہیں کہ ہم نے زندگی صحیح طرح نہیں گزاری۔ جو یہ احساس زیاں رکھتا ہے اسکی زندگی کے لمحات قیمتی ہو جاتے ہیں۔ موت کا دروازہ دنیا کی حقیقت کھول دیتا ہے۔

امام برحق کی ملاقات ہمارا خون گرما دے اور ہمیں فقر (جسے زندگی گزارنے کے لیے زیادہ چیزیں درکار نہیں) کا عادی کرے۔ زندگی کی مادی دوڑ (کھانے، پینے، پہننے اور خرچ کرنے) سے بڑھ کر سوچنے کی صلاحیت عطا کرے۔ بقول اقبال مسلمانوں کی معراج بے نیازی اور غیر مادی چیزوں میں ہے۔

نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی

مسلمان اور امام کی شان یہی ہے کہ وہ دنیا کو مٹی سے زیادہ اہم نہ سمجھے۔ خدا ہم سب کو منصب جاہ کی خواہش سے دور رکھے اور صالحین اور متقی لوگوں کا امام بننے کی تمنا اور کاوشوں میں کامیاب کرے۔ اہل علم اور اہل نظر لوگوں سے جوڑ دے اور ان کی صحبت عطا کرے مگر ان کا محتاج ہوئے بغیر۔ ہمیں ان سے محبت دے مگر ان کی شخصیت پرستی کے بغیر۔ مسلمان کا جب آئیڈیل سلطان اور بادشاہ بن جائے تو پھر اس کی شخصیت پر اس کا اثر اور اس کی عو چھانا شروع ہو جاتی ہے۔ ہمیں اس کے بجائے متقی اور لللہیت رکھنے والے لوگوں کا دوست اور پیروکار بنائے۔

کتاب روشن مسکراتی ہے۔

بیشک خدا سے صرف علم رکھنے والے ہی خشیت رکھتے ہیں (سورت فاطر۔ آیت 26 جزوی)

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood