Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Kashif Hussain
  4. Fikri Mukalma

Fikri Mukalma

فکری مکالمہ

ایک دفعہ اوپرا ونفری نے سابقہ امریکی صدر جمی کارٹر کو اپنے پروگرام میں مدعو کیا۔ ان دونوں کے درمیان فکری مکالمہ آپ بھی سنیں۔۔

اوپرا: آج کے حالات میں آپ یہ عہدہ رکھنا چاہیں گے اور اگر آپ ایسا کرنا چاہیں تو کیا آپ کو منتخب کیا جا سکتا ہے؟

جمی: بالکل بھی نہیں۔ اب آپ ڈیموکریٹک یا ریپبلیکن کی نامزدگی دو، تین سو ملین ڈالر یا اس سے ذیادہ جمع کرنے کے قابل ہوں تب ہی آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ میں ایسا کرنے کی خواہش نہیں رکھتا۔ میں یہ کرنے کے قابل بھی نہیں ہوں۔ آج ہم جمہوریت کے بجائے اشرافیہ بن چکے ہیں۔ یہ امریکہ کے سیاسی نظام کی بنیادی اخلاقیات اور اخلاقی معیار کے لیے سب سے بڑا نقصان ہے۔ جسکا میں شاہد ہوں۔

اوپرا: آپ عبادت اور دعا پر یقین رکھتے ہیں اور سب سے زیادہ دعا آپ نے وائٹ ہاوس میں قیام کے دوران کی۔ کون سے دعا آپ کے دل میں گھر کیے ہوئے ہے؟

جمی: میں اپنی زندگی کا بہترین ٹیلینٹ، صلاحیت اور اثر رسوخ کو خدا کی عطا کردہ حکومت کے بہترین استعمال میں لاوں جو میرے خیال میں امن، آزادی اور انسانوں کے حقوق کے استحصال کو روکنا ہے۔

اوپرا: آپ کے ایمان کا سب سے بڑا امتحان کب آیا؟

جمی: جب تہران کی امریکی ایمبیسی میں 66 افراد کو یرغمالی بنا لیا گیا تو اس وقت مجھے میرے تمام مشیروں حتیٰ کہ میری اہلیہ نے مجھے بھی آرمی ایکشن کا مشورہ دیا اس وقت مجھے میرے ایمان نے آرمی ایکشن سے منع کیا۔ میں اس لحاظ سے خوش قسمت ہوں کہ میری صدارت کے دوران کوئی بم، میزائل یا گولی نہیں چلائی گئی۔

یرغمالیوں کو رہا کرانے کا آپریشن کامیاب نہ ہو سکا۔ جمی کارٹر نے اپنی اگلی صدارتی ٹرم اور عوامی دباؤ کی پروا نہ کی جس کی قیمت انہیں وائٹ ہاوس سے نکلنے اور سیاسی کیریر کے خاتمے کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔ جمی کارٹر جارجیا کی زمین دار فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ جو مونگ پھلی اگاتے تھی۔ جمی کارٹر نسلی امتیازات کے خاتمے بالخصوص سیاہ فاموں کے بنیادی حقوق کی بالا دستی کے لیے مشہور تھے اور سیاست میں قدم رکھا اور جارجیا کے گورنر منتخب ہوے اور صدر کی کرسی تک جا پہنچے۔ 2002 میں امن کا نوبل انعام بھی حاصل کیا۔ اپنے گاوں کے چرچ میں اتوار کو باقاعدگی سے لیکچر دیتے رہے۔ یہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا۔ یہ واحد صدر تھے جو صدارت کا عہدہ چھوڑنے کے بعد اپنے اسی مکان میں منتقل ہوئے جس میں وہ سیاست میں آنے سے قبل رہتے تھے۔

ہم نے مربی سے فکری مکالمہ پر آگہی چاہی۔ بقول مربی ہم اس دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں مکالمہ مر رہا ہے اور دھونس دندنا رہی ہے۔ مکالمے کا احیا بھی بڑی نیکی ہے۔ مربی ہمیں فکری مکالمہ کا درس دیتے ہیں یعنی وہ مکالمہ جو غور و فکرکے دروازے کھول دے اور بامقصد اور با معنی گفتگو کا شعور عطا کرے جو لوگوں سے بات چیت کے ذریعے ان کی سوچ اور ان کے محسوسات پر ایسے اثر انداز ہو کہ عمل کی صلاحیت بیدار کردے۔ غور و فکر ہمارے اندر سوال کرنے کی جستجو پیدا کرتا ہے۔ سوال پوچھنے اور سوال کے ساتھ وقت گزارنے کو ممکن بناتا ہے۔ سوال کی اہمیت وہ کنجی ہے جو غور و فکر اور تدبر کی راہ ہموار کرتی ہے۔ غور و فکر ہمارے خیالات کے تناظر کو وسیع کرنے کا ساماں کرتا ہے اور باطن کی دنیا میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سوال ہمیں علم کا طالب بناتا ہے۔ مکالمہ تربیت کی راہ ہموار کرتا ہے۔

غور و فکر سے بنیادی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سوال مکالمے کا سفر کراتے ہیں اور اس مکالمے کی گہرائی باطن کی سیر کی راہ ہموار کرتی ہے۔ یہ سفر بڑے سوالات کی شاہراہ پر موثر نتائج پیدا کرنے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اس فکری مکالمے کے نتیجے میں ہمارا اپنے ساتھ اور دوسروں کی ساتھ تعلق استوار ہوتا ہے۔ فکری مکالمے کا اخلاص ہمیں علم کا نور عطا کرتا ہے۔ جوں جوں مکالمہ پختگی کا سفر کرتا ہے۔ ہمارے دل کی کثافت دھلتی جاتی ہے۔ فطرت سے آشنائی ملتی جاتی ہے اور خودی کا نور بصیرت نظر آتا ہے۔

مربی فکری مکالمے کو پروان چڑھانے کے لے گفتگو کے مختلف طریقے سکھاتے ہیں۔ مثلاََ

1۔ سوال کی مدد سے

2۔ کہانی کے ذریعے سے

3۔ ذاتی تجربات اور مشاہدے کی روشنی سے

4۔ شعرو شاعری سے

5۔ حالات و واقعات کی مدد سے

6۔ فطرت کے ذریعے

ویسے تو عہد حاظر کے آشوب سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔

کون سی رات زمانے میں گئی جس میں میر
سینہ چاک سے میں دست و گریبان نہ ہوا

فکری مکالمہ دل میں بہار کے عجب رنگ لاتا ہے۔ روح ماضی کا سفر کرتی ہے۔ خدائے بزرگ و برتر کا ملائکہ سے مکالمہ کائنات میں گونجتا ہے۔ پھر خدا اور ابلیس کا مکالمہ سنائی دیتا ہے۔ اسکے بعد خدا اور آدم کے مکالمے سے ہمارے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ غار حرا میں دانائے سبل نظر آتے ہیں اور غور و فکرکے وہ مقام جہاں کائنات کی حقیقت وا ہوتی ہے۔ مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کا تھڑا نظر آتا ہے۔ جس پر بیٹھنے والوں نے جمال یار کی روشنی میں بڑے سوال اٹھائے۔ مولانا روم کی سائلوں سے کھانے کی نشست پر گفتگو اور مکالمہ جہاں عشق کے راز اور سائل کے درد وغم کے داغ نظر آتے ہیں۔ گوتم بدھ برگد کے سائے تلے کائنات کی حقیقت کا سفر کرتے ہیں۔ سقراط کی تدریس نظر آتی ہے جہاں بنیادی سوالات سے پیچیدہ مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ خردو جنوں کی آنکھ مچولی میں ھمارا دل ڈولتا ہے اور دل کی الجھنیں عیاں ہوتی ہیں۔

گفتگو اور مکالمہ ہماری عقلی اور علمی ضرورت بھی ہیں۔ تاکہ ہم تخلیقی سفر پر جا نکلیں۔ مکالمہ تخیل اور تصور کو وسعت دیتا ہے۔ شاید اسی لئے آئن سٹائن نے کہا تھا کہ تخیل علم سے بھی زیادہ قوت رکھتا ہے۔ کتاب مقدس سے آواز آتی ہے۔

بیشک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے (سورت بقرہ آیت 30۔ جزوی)۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali