1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Ikhlaqiat

Ikhlaqiat

اخلاقیات

ہمارے معاشرے میں کرپشن کے بعد اخلاقیات کی کمی دوسری سب سے بڑی برائی ہے۔ کرپشن اور اخلاقیات کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اخلاق انسان اپنی ماں کی گود سے سیکھنا شروع کر دیتا ہے جب کہ کرپشن معاشرہ سکھاتا ہے۔ معاشرے کی ناانصافی اپنے مذہب سے دوری اور خدا پر کامل یقین نہ ہونا آخرت کے دن جزا سزا پر ایمان نہ ہونا۔ یہ وہ بڑی وجوہات ہیں جسےکرپشن کرنے میں آسانی محسوس ہوتی ہے۔ کرپشن کو صرف مالی کرپشن نہ سمجھا جائے اس کو وسیع معنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کرپشن سے کی گئی کمائی سے جو والدین اپنے بچوں کو رزق کھلاتے لامحالا وہ کہیں نہ کہیں جا کر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو جاتےہیں۔ اخلاقیات اخلاقی اقدار کا ایسا نظام ہے جو ایک خوشگوار زندگی کی خاطر ہمارے رویہ کو تشکیل کرتا ہے۔ اخلاقیات کے توسط سےہم ایمانداری سے زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے ہمارے ارد گرد لوگوں سے بھروسہ اور دوستی جنم لیتی ہے۔ اخلاقیات خوشی کی کنجی ہے۔

لیڈر کسی بھی قوم کے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے علاوہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ہمیں کوئی ایسالیڈر ملا ہو جس کو رول ماڈل کہا جا سکے۔ سو یہ ہماری بد قسمتی کہ ہم اچھی عوام نہیں بن سکے نہ ہی کوئی اچھا لیڈر بنا سکے۔ قحطالرجال جیسا ساماں رہا ہے۔ یہی وجہ کہ ہر جگہ کرپشن کی زیادتی اور اخلاقیات کی کمی نظر آتی ہے۔ سیرت النبی کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان کے خیالات سننے کا موقع ملا۔ ان کی تقریر میں مریض کا نام تو موجود تھا۔ لیکن مرض کی تشخیص اور شافی علاج عنقا تھا۔ جب تک کسی مریض کی تشخیص صیح سے نہ ہو علاج بھی صیح نہیں ہوتا۔

ہر حکمران جو بھی آیا چاہے وہ جمہوری تھا یا ڈکٹیٹراس نے تجربات ہی کئے عملی طور پر رزلٹ صفر بٹا صفر جس سے معاشرہ انتشار کاشکار ہوا۔ ہم ابھی تک کنفیوزن میں ہیں کہ ہم اسلامی جمہوری پاکستان ہیں یا لبرل ہیں۔ ہم آدھا تیتر آدھا بٹیر ہیں۔

ایسا ہی اسلام مرد مومن مرد حق نے بھی نافذ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور جہاد کی آڑ میں ایسی شدت پسندی کے بیج بوئے جس کاخمیازہ ابھی تک قوم سود سمیت برداشت کر رہی ہے۔ عدم برداشت اور اخلاقیات کا جنازہ انہی کے دور میں نکلا فرقہ واریت اورصوبائیت برادری ازم جیسے ناسور انہی کے دور میں زیادہ نمودار ہوئے جو دیکھتے دیکھتے پوری قوم کو مفلوج کر گئے۔ چادر اور چاردیواری کے تقدس اور پردہ پوشی جیسے بنیادی حقوق پر قدغن لگا کر ایسے قوانین بنائے گئے جو آج بھی کسی کو بھی ہراساں کرنے کےلئے اکثر خبروں کی زینت بنتے اور یہ قوانین بھی غریب پر ہی لاگو ہوتے۔ ایلیٹ کلاس آج بھی اس کو موم کی ناک سمجھتی۔

وزیر اعظم صاحب جو علاج تجویز کر رہے بین الاقوامی سطح کے لئے تو موزوں سمجھ میں آنے والی بات کہ ان لوگوں کو نا موس رسالت ﷺ کی اہمیت سے اجاگر کیا جائے۔ پر جن ملکی مذہبی اسکالر کی یہ بات کر رہے ہیں ان پر اتفاق رائے قائم ہونا جہاں ہر مسلک خود کو صیح سمجھتا ہو بعید از قیاس والامعاملہ لگتا۔

اوپر سے ستم ظریفی دیکھئے کہ اخلاقی کرپشن سب سے زیادہ دینی مدارس میں ہیں۔ دینی مدارس میں زیادہ وہ بچے جاتے جن کہ ماں باپ غریب ہوتے یا یتیم بچے کوئی شک نہیں حافظ قرآن بھی اور عالم بھی بنتے۔ لیکن معاشرے میں ان کا کردار اس طرح سےنہیں ہوتا جو قرون اولی کی یاد تازہ کرے۔ ان کی اخلاقیات پر ایک بہت بڑاسوالیہ نشان ہے؟ ہم انہی لوگوں سے اخلاقیات سیکھنےکے لئے کہہ رہے جن کے اپنے بیسک اسکول آف تھاٹ میں بہت کام کرنے کی ضرورت۔ مذہبی شدت پسند عناصر نے پورےمعاشرے کو یرغمال کیا ہوا ہے۔ ان کو مزید عوام کے خون پسینے کی کمائی سے نوازنے کی بھر پور تیاری کر لی گئی ہے جس کا کوئیرزلٹ نہیں ملنے والا۔ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ سسٹم آپ کے جانے کے بعد بھی اسی طرح ڈلیور کرتا رہے گا؟

کیا یہ سچ نہیں کہ ہم لوگ پکے پانچ وقت کے نمازی ہیں۔ جمعہ کی نماز میں مساجد بھری ہوتی۔ عمرہ اور حج کرنے میں بھی سب سےآگے ہیں۔ رائے ونڈ کا اجتماع ہر سال جس میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے پورا سال جماعتیں پورے پاکستان میں کام کر رہی ہوتی پھر کیا وجہ کہ ہم آج بھی اخلاقیات کے حوالے سے دنیا میں بہت پیچھے کیا کبھی کسی نے غور کرنے کی کوشش کی؟ ایک ڈائیلاگ مشہور ہوا تھا کہ رانگ نمبر تو یہ سب رانگ نمبر ہیں۔ اگر یہ رانگ نمبر نا ہوتا تو ہمارا معاشرہ جنت نظیر ہوتا۔ ہمارے ہاں علماء کی کمی نہیں عمل کی کمی ہے اور یہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا تھا کہ ایک دور آئے گا عالم بہت ہوں گے عمل نہیں ہو گا ہم اب اس دور میں ہیں۔ اسی لئے معاشرے میں بہتری نہیں آرہی۔

کہتے کہ مرد کو تعلیم دی جائے تو ایک فرد سنورتا اگر عورت کو تعلیم دی جائے تو نسل سنورتی ہمیں بچیوں کی تعلیم پر بھر پور توجہ دینی ہو گی۔ کیونکہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی اخلاقی تربیت گھر سے سٹارٹ ہوتی ہے۔ اس کے بعد پرائمری سکول کے اساتذہ پربھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جن بچوں نے آنے والے کل کی ذمہ داری لینی ہے کیا ہم ان کو کوالٹی ایجوکیشن دے رہےسب سے بڑھ کر جو پرائمری اساتذہ ان کی اخلاقیات ان کی ایجوکیشن ایسی ہے کہ آنے والے معمار ان کے سپرد کر دئیے جائیں۔ جواب نفی میں ہے۔ سندھ کے پرائمری اسکولز کی حالت اور اساتذہ کی قابلیت پر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟

پھر پرائیویٹ اسکولز کی پرائمری اساتذہ کا اخلاقیات اور علمی قابلیت پر بھی سوال بنتا؟ جواب نفی میں ہے جب ایسے حالات ہوں اور ہم علاج بھی انہی سے کروانا چاہے جس عطار کے لونڈے سے بیمار ہوئے ہمیں بنیادی اسکول سسٹم کو ٹھیک کرنا ہو گا اچھےمعیاری اساتذہ جن کو اچھے سے ٹرینڈ کیا جائے جاپان کے اسکول سسٹم کو لاگو کیا جائے جاپانی قوم اخلاقیات میں سب سے آگےہے۔ یہ حکومت کا اچھااقدام ہے جو نصاب سب کے لئے یکساں کیا ہے اس کے بھی دور رس نتائج ملیں گے۔

ہمارےمعاشرے کو رواداری انصاف قوت برداشت دوسرے کے نقطہ نظر کو سننے سمجھنے دلیل سے بات کرنے کی اشد ضرورت ہے فتویساز فیکٹریوں کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے جو عریانی فحاشی کی بات کی اس میں سب سے بڑا فیکٹر بھوک ہے۔ کہتے زیادہ غریبی بھی اور زیادہ امارت بھی دونوں برائی کی طرف لے جاتی۔ اس ملک کو اسلامی اسکالرز کی نہیں معاشیاسکالرز کی ضرورت جو بھوک کو کم کرے ہر جمعہ کو منبر رسول ﷺ کا استعمال ہوتا ہے ان پر حکومت کو کنٹرول کرنا چاہئے جیسےسعودی عرب کا ماڈل ہے ک حکومت فیصلہ کرتی کہ کون سا خطبہ دینا ہے تا کہ ملک میں انتشار کم ہو۔

دوسرا میرا وزیر اعظم صاحب سے سوال ایک طرف آپ ملک کو سیاحتی مقام بنا نا چاہتے اسلامی طرز حکومت میں کیا یہ انڈسٹری پھل پھول سکے گی؟ جیسے آپ ابھی تک کنفیوزن میں ہیں قوم بھی ابھی تک دانتوں میں انگلی دبائے تماشہ سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ ہم مجموعی طور پر ایک کنفیو زڈ قوم ہیں۔ ابھی تک تو یہی ثابت کیا ہے۔

Check Also

Shadi Kis Umar Mein?

By Khateeb Ahmad