Professor Doctor Mehmood Akhtar, Ism Ba Musamma Shakhsiyat
پروفیسر ڈاکٹر محمود اختر، اسم با مسمی شخصیت

وہ دیکھنے میں سنجیدہ، گفتار میں اختصار، علم میں پختہ، عمل میں میانہ رو و مستقل مزاج اور کردار میں "علو" رکھنے والے سائنس کے فرد ہیں۔۔ میرا ان سے زیادہ مکالمہ تو نہیں رہا۔۔ لیکن جب بھی بات کی "عقل و خرد" کے کچھ نگینے ضرور ہاتھ آئے۔۔ سوچ کے بند دریچے ضرور "وا" ہوئے۔ تصور و خیال کو کشادگی ضرور میسر آئی۔۔ کچھ کرنے کی امنگ اور آگے بڑھنے کی ترنگ کو "تحرک" ضرورملا۔۔ ان کے عزم کی پختگی سے یوں لگا جیسے "خزاں زردہ" موسموں میں بھی "ابر بہار"برسا کر "گلوں" میں رنگ بھرنے اور ان کو خوشبوؤں سے معطر کرنے کا فن ان کو آتا ہو۔۔
ویسے بھی "دھیمے لہجے" متاثر کن ہوتے ہیں اور اپنے "سامع" کو اپنی طرف متوجہ ضرور کرتے ہیں اب یہ جاذبیت شخصیت کی بھی آئینہ دار ہو اور "ندرت خیال" بھی دامن گیر ہو تو میرے جیسے "تشنگانِ علم" دل کی ویران کھیتیوں کو "سراب" کرنے کی طلب لئے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اکتساب فیض ہی کو "حریم جان" سمجھتے ہوئے امڈ آتے ہیں۔۔ کوئی ان کو کیا سمجھتا ہے۔۔ کسی کو وہ بھلے لگتے ہے یا برے۔۔ ہمارا اس سے کیا سروکار۔۔ کسی کو ماننا نہ ماننا اپنا نقطہ نظر ہے اور اپنا ہی "خیال"۔۔ جو درست ہے اس کو اپنانا اور جو درست نہ لگے اس کو چھوڑنا یہی تو دستور دنیا بھی ہے اور علم کی منشاء بھی۔۔
فرمان مولا علیؑ بھی ہے "یہ دیکھو بات کیسی ہے یہ نہ دیکھو بات کس نے کی ہے؟"
کچھ تو اہمیت ہوگی اس بات کی۔۔
اب پروفیسر ڈاکٹر محمود اختر قسمت کے "دھنی" ہونے کے ساتھ نام کے بھی "دھنی" ہیں۔۔ آپ کا نام بھی "اسم با مسمی" ہے "محمود" جس کی تعریف ہو۔۔ اب مختلف شعبہ جات کے افراد ان کے کام کی تعریف بھی کرتے ہیں اور ان کی خدمات کو خراج تحسین بھی پیش کرتے ہیں۔۔ تو لامحالہ ان کا "نام" اور "کام" یکجاء ہوگئے ہیں۔۔ پروفیسر ڈاکٹر محمود اختر "صاحب فن" ہونے کے ساتھ ساتھ "صاحب فراست" بھی ہیں۔۔ علم کے نہ صرف قدر دان ہیں بلکہ علم کے "پروموٹر" اور "صاحبان علم" اور "صاحبان قلم" کے بھی قدردان ہیں۔ تعریف کرنے میں کبھی "کنجوسی" کا مظاہرہ نہیں کرتے۔۔ کبھی تو لگتا ہے "ہزاروں غم" سینے میں چھپائے مسکرانے کے عادی بن چکے ہیں۔
طلباء کے اندر علم کے حصول کی "جنونیت" بھرنے کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ اس پر اپنے وسیع تجربات کی روشنی میں "عمل درآمد" کرنے کے لئے عملی طور پر "کوشاں" بھی ہیں۔ کوئی سائنس کا بندہ نہ بھی ہو وہ "فوکس لنز" کی تماثیل سے عمدہ و سہل انداز میں دقیق گوشوں کو بھی سمجھانے کا فن جانتے ہیں اور فزکس کی ان مثالوں کو انسانی زندگی سے جوڑ کر اس کے اثرات بابت بھی شناسائی بخشتے ہیں۔۔ ایسے لوگ قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں اور اگر وہ مستقل بنیادوں پے "تسخیر کائنات" کے پردوں سے راز اٹھانے لگ جائیں تو ایک رب کی "ربوبیت" کو "سانئسی براہین"اور قرآنی آیات سے ثابت کرنے کا کام اور آسان بنا سکتے ہیں اور "فتنہ الحاد" کی بیخ کنی میں اپنا موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
بگ بینگ تھیوری ہو یا" ٹائم اینڈ سپیس" کے "گنجلک" سوال پروفیسر ڈاکٹر محمود اختر جیسے ذہین افراد آسانی سے بہکے ہووں کو سوئے منزل پہنچا کر رب کے قریب کرسکتے ہیں۔ مجھے تو ان کے "تبحر علمی" کو جان کر یہ حدیث نبوی ﷺ یاد آگئی، "ایک عالم (صاحب علم وفن) کا کائنات کے بارے میں ایک لمحے کے لئے غور فکر کرنا ایک زاہد کی ستر سالوں کی نفلی عبادت سے بہتر ہے"۔
مجھے امید واثق ہے اور وجدان کہتا ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر محمود اختر صاحب یقیناً اس حدیث کا مصداق ہوں گے اور آنے والے دنوں میں نسل نو کے متجسس نوجوانوں کی اصلاح کے سامان کی کوشش کریں گے اب جب وہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج میرپور بحثیت ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ شعبہ فزکس ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ درازی عمر کے ساتھ اپنی مثبت سرگرمیوں کو جاری رکھیں گے اللہ ان کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے اور ان کے علم و عمل میں برکت دے۔

