Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basharat Ali Chaudhry
  4. Maa Tujhe Salam

Maa Tujhe Salam

ماں تجھے سلام

وہ میری سانسیں تھی۔۔ اس کا کرب۔۔ اس کا کرب تھا مگر میرا سکون اسی میں تھا۔۔ اس کے دل کی دھڑکن سے میرے ننھے سے دل کو حرکت ملتی۔۔ خون کی گردش میں "میں" تھا۔۔ اس کی خوراک سے میرے تن بدن کو طاقت ملتی۔۔ غم سارے اس کے تھے۔۔ راحتیں ساری مجھ پے نچھاور تھیں۔۔ بوجھ وہ اٹھاتی۔۔ تھکن کا احساس اس کو ہوتا تھا۔۔ جسم اس کا سلگتا تھا۔۔ بے چینی اس کا "جزولاینفک"تھا۔۔ نڈھال وہ ہو جاتی۔۔ سرد وگرم ہوائیں اس کے تن بدن کو متاثر کرتیں۔۔

راتوں کے "رتجگے" اس کے لئے تھے۔۔ جسمانی اذیتیں اس کے وجود کا حصہ بن گئیں تھیں۔۔ ذہنی مشقت اس کے دامن گیر تھی۔۔ لیکن وہ یہ سب سہہ رہی تھی۔۔ اس کو پتہ تھا کہ زندگی و موت کی کشمکش ابھی باقی ہے۔ ناسوتی دنیا سے کوچ بھی ہو سکتا ہے۔۔ کچھ سسکیاں۔۔ کچھ آہیں ابھی باقی ہیں۔۔ کچھ کرب و دکھ ابھی سہنے ہیں۔۔ لیکن وہ پر عزم ہے۔۔ اس کا یقین متزلزل نہیں ہوا۔۔ وہ "یاس" کی کیفیات سے دوچار نہیں ہوتی۔۔ وہ رب کے سہارے اور کسی پیارے کو وجود بخشنے کے لئے تیار رہتی ہے۔۔

ایک ایسا وجود جس کی جنت اس کے قدموں تلے ہے۔۔ ایک ایسا وجود جس کی پہلی "درس گاہ" اس کی گود قرار پاتی ہے۔۔ ایک ایسا وجود جو "ظلمات ثلاثہ" میں رہ کر تشکیل پاتا ہے۔۔ ایک ایسا وجود جو سات مختلف مدارج سے گزر کر آشکار ہوتا ہے۔۔ ایک ایسا وجود جس کی ابتداء ایک ایسے "مادہ" (نطفتہ امشاج) سے ہوئی جو "بین الصلب و الترائب" سے ہوتا ہوا "علقہ"کی منزل طے کرتے ہوئے گوشت پوست کا لوتھڑا بنتا ہے اور پھر جس میں روح کو پھونکا جاتا ہے۔۔ پھر عادات و اطوار بنتے ہیں۔ پھر تشکیل سے تکمیل کے مرحلے طے کرتا ہوا "احسن تقویم" تک پہنچتا ہے۔۔

ماں ان سارے مراحل کو کسی امید پر طے کرتی ہے۔۔ وہ اتنے"کرب و الم" انسان کی بقاء و افزائش کے لئے کرتی ہے۔۔ وہ نسل انسانی کی "اصل" ہے۔۔ "بنیاد"ہے۔۔ "جڑ "ہے اس لئے عربی میں اس کو "ام"، بھی کہتے ہیں۔ وہ وجود انسانی کی تشکیل میں جو تکلیف اٹھاتی ہے۔۔ اس کا کوئی "نعم البدل" نہیں۔۔ اس کا کوئی ازالہ نہیں۔۔ اس کی کوئی ادائیگی حق نہیں۔۔ وہ قربانی لازوال ہے۔۔ وہ قربانی بے مثال ہے۔۔ کوئی اولاد لاکھ جتن کرئے۔۔ لاکھ حج و عمرے کندھے پے اٹھا کر کروائے۔۔ دوران پیدائش ہونے والی ماں کی ایک لمحے کی تکلیف کا بھی حق ادا نہیں کر سکتا۔۔ وہ "چشم تصور"میں دیکھے۔۔ اس کے کان۔۔ ان سماعتوں کو سنیں۔۔ جن کا اجراء زبان نبوی ﷺ سے ہوا جب فرمایا۔۔ "تم پے پہلا حق ماں کا ہے"۔۔ پھر پوچھا"۔۔ کس کا؟" فرمایا" ماں کا"۔۔ پھر پوچھا "کس کا"؟ فرمایا۔۔ "ماں کا"۔۔ پھر پوچھا "کس کا"؟ فرمایا "باپ کا"۔۔ پھر اس کے احکامات سے روگردانی کیوں؟

اس کی بات سے انخراف کیوں؟ اس سے "بے توجہی" کیوں؟ اس سے ناراضی "چہ معنی دارد؟ کچھ کہنے پر "لب سینے" کی ضرورت ہے۔ "اف" کی اجازت نہیں۔۔ بس شفقت ہی برتنی ہے۔۔ غلط ہونے پے بھی "پیار "کا دامن نہیں چھوڑنا۔۔ "ولا تقل لھما اف" کے پیغام کو سمجھنا ضروری ہے۔۔ حسن سلوک اسکی ضرورت ہے۔۔ یہ حسن خلق۔۔ ہماری جنت کی کنجی ہے۔۔ یہ ہمارے لئے راہ نجات ہے۔۔ ہمارے لئے کامیابی کا زینہ ہے۔۔ ہمارے لئے باعث تسکین و راحت ہے۔۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مادی دنیا کی "چکا چوند" میں کہیں اس کو بھول نہ جائیں۔۔ کوشش کرنی چاہیے کچھ وقت ان کے ساتھ بیتائیں۔۔ اس کو تکلیف نہ بھی ہو کچھ دیر کے لئے دبائیں۔۔ اس کی دعاوں سے اپنے دامن کو بھریں۔۔ اس کی خدمت کو روزانہ کی عبادت سمجھیں۔۔ وہ "خدائی رحمت "کے ایک جھلک ہے۔۔ اس کی دعاوں کا اثر قیامت تلک ہے۔ وہ ہمارے وجود کی "زندگی"ہے۔ اس کی "قدم بوسی" ایسا مرحم ہے جس سے شفا یابی ممکن ٹھہرتی ہے۔۔

اس کی تشفی سے غم راحت و تسکین میں ڈھلتے ہیں اور جو مائیں دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔۔ ان کے لئے دعائیں کرنا لازمی امر ہونا چاہیے۔۔ ان کی اچھی یادوں اور امور تربیت سے اکتساب کرنا چاہیے ان کی قبروں پے حاضری اور ان کے لئے قرآن خوانی ہونی چاہیے۔ اللہ سے دعا ہے جن کی مائیں زندہ ہیں ان کو ان ماؤں کی فرمانبرداری ملے اور جو مائیں رب کے حضور پیش ہوگئی ہیں ان کے درجات میں بلندی ملے۔۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz