Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basharat Ali Chaudhry
  4. Khuda Ko Kyun Maane Aur Mazhab Ko Kyun Apnayen

Khuda Ko Kyun Maane Aur Mazhab Ko Kyun Apnayen

خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں

یہ موضوع صرف اچھوتا ہی نہیں ہے بلکہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور ضرورت بھی ایسی کہ اگر اس کو سمجھنے سمجھانے کا کام نہ ہوا، اس کا ادراک و فہم صحیح حاصل نہ کیا گیا اور اپنے بچوں، طلباء اور نسل نو کو اس سے آگاہی نہ بخشی گئی تو امکان موجود ہے کہ نام نہاد مذہبی سکالرز، واعظین، درباری گدی نشین اور بظاہر مشہور لیکن "علمی ثقاہت" سے محروم خطیب اپنی "چرب زبانی" اور مسلکی لڑائیوں کو بڑھاوا دے کر فتنوں کو رواج دے کر "دین بیزار" طبقات کو جنم دینے اور انہیں خدا سے ہی دور کرنے کا سبب نہ بن جائیں۔۔

مغربی یلغار تو پہلے ہی ہے۔۔ دہریت کے فتنے "گلوبل ویلج" ہونے کی بنا پر گھر کی دہلیز تک تو پہنچ ہی گئے ہیں۔۔ ڈرامہ سازوں، فلم سازوں، ادیبوں، قلم کاروں اور ہدایت کاروں نے ان" نظریات باطلہ"کو اپنے ڈراموں اور فلموں میں کسی نہ کسی طرح پیش کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ نصاب بنانے والوں اور فضول نظریات کو اس کا حصہ بنانے والوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔ اب تو اساتذہ اور طلباء بھی سوالات کی شکل میں انہی نظریات بارے جاننے کے طلبگار ہیں جو نظریات "لایعنی و فرسودہ" اور مبنی بر حقیقت نہیں ہیں جو خدا سے دوری اور مصطفی ﷺ کی فکر سے دوری کا باعث بن رہے ہیں

مغرب سے چلنے والا فتنہ "گلوبل ویلج" ہونے کی وجہ سے گھروں کی دہلیز تک پہنچ گیا ہے۔ مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی "آہ و بکا" سنائی دے رہی ہے کئی احباب نے رابطہ بھی کیا کہ بچے دین سے باغی ہوگئے ہیں۔۔ کیا کیا جائے؟ پاکستانی مسلمان "کسب حلال" کے لئے "دیار غیر" میں بسے۔۔ پیسوں کی "ریل پیل" تو میسر آئی۔۔ زندگی "ضروریات" سے بڑھ کر "آسائشات" سے ہوتے ہوئے "تعیشات" میں بسر ہو رہی ہے مگر پریشانی پھر بھی برقرار ہے۔ واعظ و نصیحت بیکار جا رہے ہیں۔ ڈانٹ و ڈپٹ اپنی اہمیتِ کھو رہے ہیں۔۔ علماء کی تقریریں "بے اثر" ثابت ہو رہی ہیں۔

پیروں کے "دم تعویز" اپنی تاثیر کھو چکے ہیں۔۔ عاملین کے "عملیات" کی افادیت ماند پڑ گئی ہے حتیٰ کہ "جادو ٹونے"، "جھاڑ پھونک" بے معنیٰ ثابت ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں کئی صاحبان علم و درد نے اپنے "علمی تجربات" و مشاہدات اور پھر "روحانی تصرفات" کی بدولت"فتنہ الحاد" کی نہ صرف بر وقت تشخیص کی بلکہ "دلائل برہانی" اور سانئسی انکشافات" و نظریات کے زریعے اس کا رد بھی پیش کیا۔ ان صاحبان علم و دانش میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کا نام سر فہرست ہے۔ جنہوں نے اس موضوع پر مدلل لیکچرز بھی دئیے۔ جو بعد ازاں ان کے طالب علم محمد انعام مصطفوی نے "کتابی نوٹس" کی شکل میں ترتیب دے کر مختلف طبقات میں تقسیم کیے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ اس "فتنہ الحاد" سے اور اس کے تدراک سے روشناس ہوکر اپنے طلباء کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دے کر ان کی "تشکیک" ختم کریں۔ والدین اپنے بچوں کی سرگرمیوں پے نظر رکھتے ہوئے ان کو "صحبت صلحاء" خود فراہم کریں۔ وہ کن احباب سے ملتے ہیں اس بارے جان کاری کریں۔۔ انٹرنیٹ پر ان کی "ایکٹیویٹیز" کا مشاہدہ کرکے "راست قدم" اُٹھائیں۔۔ ان کے ساتھ دوستی لگائیں اور تربیت کا اہتمام کریں اور بقول فرمان نبوی ﷺ" خود کو اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچائیں"۔

علماء و واعظین کو چاہیے کہ وہ "فروعی اختلاف" کو مسجد و منبر پر لائے بغیر اعتدال پسند رویوں کو اپنائیں اور اس موضوع کی سنگینی بابت سنجیدگی دکھائیں اور نوجوان نسل کے ایمان کی تدبیر کریں۔۔ احباب علم و دانش اس موضوع پر سیمینارز و ورکشاپس رکھیں اور بڑے پیمانے پر تربیتی نشستیں رکھیں۔ تاکہ نسل نو کے ایمان کے بچاو کی تدبیر کی جاسکے۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan