Alvidai Taqreeb Aur Pakwan Mela
الوداعی تقریب اور پکوان میلہ

شاعر کا تخیل ممکن ہے بڑا اچھوتا ہو۔۔ داستان گو کی داستانوں میں بھلا "رومانیت" ہوتی ہوگی۔۔ فلاسفر کے فلسفے میں کتنے "قضیے" ہوں گے جو حل طلب گردانے جائیں گے۔۔ "نازکی" لبوں کی ہو یا "گلاب کی پنکھڑی" کی۔۔ "حسین ہاتھوں کے کنگن" میں ۔۔ محبوب کی "زلف عنبرین" میں ۔۔ "مہر تاباں" چہرے میں کل کائنات مانی جاتی ہو۔۔
جمالیاتی ذوق کی تشفی کے کئی ذرائع ہو سکتے ہیں ۔۔ "اللہ جمیل و یحب جمال " جیسی "حدیث قدسی" نے اس "تسکینی ذوق" کو مقید نہیں کیا۔۔ بلکہ مطلق ہی رہنے دیا۔۔ "لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم" کہہ "انسانی جمال" کی طرف اشارہ کیا۔۔ اب اس "جمال" میں "گردش لیل و نہار" ہوں یا "کائنات بسیط" میں بکھری قدرت کی رعنائیاں۔۔ سماوی طبقات میں نمودار "بجلیاں" ہوں یا بادلوں کی "گھن گرج"۔۔ قوس و قزاح کے بکھرے رنگ ہوں یا نیلگوں آسمان کی وسعتوں میں کسی شاہین کی پرواز کامنظر۔۔ سمندروں کی گہرائیوں میں رنگ برنگی" آبی حیات" ہو۔
مختلف انواع و اقسام کے چرند و پرند ہوں یا باغات میں پھولوں کی خوشبوؤں کا بسیرا۔۔ سب اس کی قدرت کے ہی جلوے ہیں۔۔ ان جلووں سے کوئی معانی کیسے "کشید" کرتا ہے ہر کسی کی اپنی صلاحیت۔۔ ہمیں تو بحثیت مخلوق یہی کرنا چاہے کہ "یار کو ہم نے جا بجا دیکھا ہے۔۔ کبھی ظاہر کبھی چھپا دیکھا ہے" اب کالج میں پروفیسر شریف صاحب کی سرپرستی میں سال دوم کے طلباء کی"الوداعی تقریب " منعقد ہوئی۔۔ جس طالب علم نے تلاوت کی اس کی آواز و انداز میں "آلا بذکر اللہ تطمئن القلوب " کی چاشنی تھی۔۔ نعت گوئی میں بھی حضور ﷺ کی" نظر التفات" بابت کانوں میں " رس گھولتی" اور سر کو "تھپتھپاتی" شفقت کی "باز گشت" تھی۔ مترنم نظم تھی یا غزل۔۔ تسکین ذوق کا سامان میسر آیا۔۔ مزاح سے بھرپور "پھبتیاں" تھیں کہ قہقہے پھوٹے۔۔ بعضوں کے تو پیٹ میں "بل" پڑ گئے۔۔ "پند و نصائح" بھی تھے اور "اکل و شرب" کا وافر انتظام بھی۔
۔۔ پھر شعبہ اردو کی جانب سے "رنگا رنگ" پکوان میلے کا اہتمام۔۔ طلباء و طالبات کی صلاحتیوں کا ایک امتحان تھا۔۔ طالبات کی "پکوان سازی" کے تجربات سے اکتساب کا مرحلہ اور ان پکوانوں کو احسن انداز میں پیش کرنے کے فن سے آشنائی کی ایک جھلک۔۔ یہ سب کچھ "آن واحد" میں تو ممکن نہیں تھا۔۔ اس کے در پردہ کسی ماہر استاد بلکہ "ماہرین اساتذہ" کے تخیلات جدیدہ و مفیدہ کی عکاسی بھی ہوئی ہوگی۔ ان معزز اساتذہ میں چیر پرسن شعب اردو پروفیسر شاہین کوثر، نوجوان جذبوں کے سنجیدہ شاعر و ادیب پروفیسر عمران شفیع صاحب، فن ظرافت سے بھرپور شاعر و استاد پروفیسر عابد محمود عابد صاحب۔۔
پروفیسر مشتاق احمد ساقی صاحب جن کے علمی و ادبی کارناموں کو جاننے کے لئے میں بڑا "مشتاق" ہوں اور پروفیسر توصیف صاحب جو "فکری علو" کی طرف رخت سفر باندھ چکے ہیں ۔۔ سب شامل تھے۔۔ کہیں پر ریشین سلاد کی دھوم تو کہیں گول گھپوں کے لئے شور شرابا۔ کہیں پے مشروبات خالصہ تو کہیں "چکن پاستا "کی خوشبو "شاہی قلفی" تھی یا خالص کھوئے سے تیار کردہ کوئی سوغات۔۔ کھا کر لطف دوبالا ہوا۔۔ الوادعی تقریبات ہوں یا پکوان میلے۔۔ ہونی چاہیں۔۔ خود اعتمادی بھی بڑھتی ہے۔۔ تہذیب یافتہ رجحانات بھی پروان چڑھتے ہیں۔ ذوق کی تسکین ہوتی ہے اور جمالیاتی حس کو مزید تازگی ملتی ہے۔ مل کر کام کرنے کے عمل کو بھی تقویت ملتی ہے۔۔
اللہ سے دعا ہے کہ منتظمین گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج میرپور، پرنسپل اور دیگر پروفیسر صاحبان و صاحبات اور طلباء و طالبات یوں ہی خوشیاں بانٹے رہیں اور اللہ ہمارے علم و عمل میں اضافہ فرمائے۔

