Zindagi Mein, Main Ke Itne Sawalat Kyun Aagaye?
زندگی میں، "میں" کے اتنے سوالات کیوں آ گئے؟
اتنا لکھتے ہو ملتا کیا ہے؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جو مجھ سے میرا ہر قریبی ملنے والا پوچھتا ہے۔ کبھی کبھی میں بھی اس جملے کے اثر میں آ جاتا ہوں۔ کوئی ڈرامہ لکھو، پیسے بناو۔ خالی پیلی میں اپنا دماغ خالی کرتے ہو۔ میں جانتا ہوں وہ یہ سب میری محبت میں کہتے ہیں۔
اب میں انہیں کیا بتاؤں؟
میں تو دینے کے لیے لکھتا ہوں۔ جو مجھ پر گزری۔ جس طرح میں نے زندگی کو برتا، جس طرح زندگی نے مجھے برتا۔ جو واقعات و حادثات گُزرے، جو تجربات اور مشاہدات رہے۔ میں وہ سب اپنی تحریروں کے ذریعے لوٹا دینا چاہتا ہوں۔
میں گزرا زمانہ یاد کیوں کرتا ہوں؟
ملازمت سے پہلے کی زندگی بڑی مزے کی تھی۔ چھوٹے چھوٹے مسئلے اس وقت پہاڑ لگتے تھے۔ ذرا سی بات دل کو لگتی تھی۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں تھیں جس سے زندگی گھنٹوں کیا دنوں سرشار رہا کرتی تھی۔ عملی زندگی میں آئے تو انسانوں کی پرکھ شروع ہوئی۔ پہلے کے مسئلے تو مٹی کا ڈھیر لگے۔ آج کی بڑی سے بڑی خوشی اس وقت کی چھوٹی خوشی کے سامنے بہت بونی اور وقتی لگی۔ وجہ؟ یہ تو دنیا ہی اور ہے جہاں چند ایک کے سوا سب آپ کو روندھنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ساتھ ہیں مگر دم ساز نہیں۔ مجھے محلے، اسکول اور کالج کے اس وقت کے ہوشیار دوستوں پر پیار آنے لگا۔ وہ جیسے تھے سچے تھے۔
عملی زندگی کو جیت کی جنگ میں جھونک دیا گیا ہے؟
عملی زندگی کوئی اور ہی دنیا ہے۔ ایک ریس ہے جہاں ساتھ دوڑنے والے ایک دوسرے کو ہرانے کے لیے دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ اسے دنیا مقابلہ کہتی ہے جس میں جیتنے اور ہرانے والوں سب تھک جاتے ہیں۔ ہم فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ کو ہی کیوں فاتح مانتے ہیں، All win کا کوئی فارمولا وضع کیوں نہیں کر لیتے۔ اس دنیا میں چاہے مقابلہ افراد میں ہو یا اقوام میں، یہ جیت کا جنون ہے جس نے دنیا کو تباہ کردیا ہے۔ جیت کا یہ جنون برتری کا جنون ہے۔ دوسروں کو کمتر ثابت کرکے ان پر حکمرانی کا جنون ہے۔ ہمت، طاقت اور صلاحیت کو جیت سے جوڑ دیا گیا ہے جبکہ اس کا اصل منبع کامیابی ہونا چاہیئے۔ مقابلے میں جیتنے سے ہزار گنا بہتر ہے کہ ہم مل کر کامیابی حاصل کریں۔ جیت نے مادی ترقی کے دروازے کھول دیئے ہیں مگر رواداری، برابری اور احترام کی کھلی شاہراہ کو تنگ سے تنگ کر دیا ہے۔
کیا ہم کوئی اور راہ نہیں چن سکتے؟
چن سکتے ہیں لیکن اس کے لیے مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا۔ ساتھ چلنا ہوگا۔ ریس نہیں لگانی ہوگی۔ معذرت کے ساتھ ریس کو جانوروں تک ہی محدود رہنے دیں۔ معاملہ یہی ہے کہ جب مادہ پرستی کا خناس ذہن میں آجائے تو پھر بہت سارے احساس مٹا دیتا ہے۔ یہ احساس ہی تو ہے دکھ درد کو سمجھتا ہے۔ ہر چیز کو نفع نقصان کے ترازو میں نہیں تولتا۔ دماغ دل پر حاوی آتا جا رہا ہے۔ دماغ کی چالاکیاں جوبن پر ہیں جو دل جیسا سادہ مزاج نہیں سمجھتا۔ دل و دماغ کو تو زندگی میں توازن کے لیے دیا گیا تھا لیکن ہم نے دل کو محض ایک بلڈ پمپنگ مشین سمجھ لیا ہے۔
کیا زندگی صرف ذاتی ضروریات اور ترجیحات کا کھیل ہے؟
یہ دماغ پر عقل کی حکمرانی ہے جس نے ریس میں ہر رابطے، واسطے، رشتے کو ذاتی ضروریات اور ترجیحات سے جوڑ دیا ہے اور اسے عقلمندی کے سب سے اعلی درجے پر رکھ دیا گیا ہے۔ جب زندگی اپنی ضروریات کے تحت گزارنی ہو تو پھر سب ایک دوسرے کے آلہ کار ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کو استعمال کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ہوشیار نشانہ باز کی طرح تاک میں بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ ذاتی ضروریات اور ترجیحات دراصل موقع و مطلب پرستی کا پوشیدہ نام ہیں۔
یہ تو چند ایک؟ ہیں۔ آج کل زندگی نہ جانے کتنے؟ سے بھری پڑی ہے جس میں صرف میں ہی میں ہوں۔ پہلے ان؟ سوالوں میں سب ہوا کرتے تھے۔ اس لیے جواب بھی مل جایا کرتے تھے۔ اب سب کے؟ الگ ہیں۔ اس لیے سب ایک دوسرے سے چھپاتے ہیں۔ مان لیں ان؟ کے چکر میں ہم چھپ چھپ کر جی رہے ہیں۔