Tuesday, 21 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Ali Durrani
  4. Wo Aankhein

Wo Aankhein

وہ آنکھیں

فروری کا مہینہ جب شروع ہوتا ہے تو چوک چوراہوں، بازاروں میں اور تعلیمی اداروں کے باہر سرخ گلاب کے پھول دیکھنے کو ملتے ہیں۔ زیادہ تر کم عمر بچے یہ پھول فروخت کرتے ہیں۔ دنیا بر میں ہر 14 فروری کو یوم محبت یعنی ویلنٹائن ڈے، ویلنٹائن کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے۔ کہ کئی سال پہلے جرم کرنے پر بادشاہ سلامت نے ویلنٹائن کو پھانسی دی تھی اور پھانسی سے قبل ویلنٹائن نے اپنی محبوبہ کو جیل سے ایک کارڈ بھیجا جس پر لکھا تھا آپ کا ویلنٹائن۔

اس کے بعد یہ جملہ اتنا مشہور ہوا کہ لوگ اب ہر سال 14 فروری کو ویلیں ٹائن کی یاد میں یہ دن مطلب یوم محبت مناتے ہیں۔ یہ سب باتیں ایک طرف لیکن لفظ محبت کے ساتھ بہت سے سوالات جوڑے ہوئے ہیں۔ یو سمجھے کہ کوئی لفظ محبت بولتا یا کہتا ہے تو انگنت سوالات ذہن انسانی میں پیدا ہوتے ہیں۔

پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ محبت کیا ہے؟ بہت سے لوگ اس سوال کا جواب کچھ اس طرح دیتے ہیں کہ محبت احساس ہے جس کو انگلش میں فیلنگز کہتے ہیں۔ تو اس کے ساتھ ذہن میں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔ کہ یہ احساس کیا ہے؟ اس سوال کے بعد بہت سے لوگ اکثر خاموش ہو جاتے ہیں۔ محبت کیا ہے؟ کے جواب میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ عزت و احترام کا نام ہے۔ ایسے بہت سے الفاظ ہیں جن کو لوگ مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں اور اس کو بیان کرتے ہیں اس میں ایک لفظ محبت کا بھی ہے۔ بعض ایسے افراد بھی اس معاشرے سماج میں موجود ہے جو کہتے ہیں کہ ہم محبت کرتے ہیں لیکن ان افراد کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ محبت کیا ہے؟ یا کسے کہتے ہیں؟

اگر کوئی ان لوگوں سے سوال بھی کریں تو وہ فوراً یہ جواب دیتے ہیں کہ محبت تو بس محبت ہے اسکے کیا معنی ہوسکتے ہیں۔ اصل میں اس قسم کے لوگ فضول میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مطلب کسی انسان کو کوئی چیز کے بارے میں کوئی علم نہیں اس چیز کی حقیقت اس کو معلوم نہیں اور وہ یہ کام جوش و جذبے سے کرتے ہیں۔ تو یہ کلی حقیقیت ہے کہ وہ صرف اپنا وقت ضائع کررہا ہے۔

محبت کی بھی بہت اقسام ہیں کوئی کتابوں سے محبت کرتا ہے تو کوئی کسی دوسرے چیزوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ بعض خفیف العقل بھی ہوتے ہیں کہ اس کو جس چیز پر دل آجاۓ مطلب پسند آجاۓ اس چیز کے قریب جانا شروع کرتے ہیں باقی اس چیز کے بارے میں اس کو کوئی علم نہیں ہوتا نہ اس چیز کی حقیقت کے بارے میں بس ہر وقت اس کے دماغ پر وہ چیز وہ شخص سوار ہوتی ہے۔ دانشور اس بارے میں یہ کہتا ہے کہ ہر وہ احساس جو انسانی ذہن میں کسی اندرونی یا بیرونی محرک سے پیدا ہوتی ہے تصور کہلاتی ہے۔

جنون کے متعلق فلسفی کہتا ہے تصورات اور تخیلات کا دلیل اور ثبوت سے رشتہ ٹوٹ جانے کو جنون کہتے ہیں۔ ان دو سٹیٹمنٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو شخص کسی ایسے انجان چیز سے محبت شروع کرتا ہے یا محبت ہو جاتی ہے تو اصل میں اس انسان کے اندرونی یا بیرونی محرک سے یہ جزبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کو روکنا انسان کی بس میں ہے وہ ان محرکات کو روک سکتا ہے لیکن اگر وہ نہیں نہیں روک سکتا یا وہ خود یہ نہیں چاہتا تو یہ جنون ہے بعض لوگوں کے خیال میں یہ ذہنی بیماری ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایک اساسی مسئلہ یہ بھی ہے یہاں پر بعض شاعر جب شعر لکھتا ہے یا بولتا ہے تو اس میں وہ محبوب کے ہونٹ، لب، آنکھ اور رخسار کا ذکر بہت کثرت سے کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے موجودہ دور میں محبت کا وہ مقام نہیں جو ہونا چاہیے تھا۔ بس شاعر کے دل میں جو کچھ بھی آۓ وہ بول یا لکھتا ہے محبت کے علاؤہ بھی بہت کچھ ہمارے سماج میں موجود ہے بہت سے ایسے موضوعات ہیں کہ اس پر لکھنے کی ضرورت ہے لیکن زیادہ تر شعراء معاشرے کا خیال نہیں رکھتے کہ میں کیا لکھا رہا ہوں۔

ایسی وجہ سے جب کوئی محبت کا نام لیتا ہے تو فوراً لڑکی کا خیال ذہن میں آجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے موجودہ دور میں بہت سے نوجوان ذہنی بیمار ہیں۔ آج سے چند دن پہلے عصر کے وقت میں ایک بڑے پارک میں چہل قدمی کررہا تھا مجھے سرسبز جگہیں بہت پسند ہے دوران چہل قدمی میں نے دیکھا ایک درخت کے نیچے ایک نوجوان بیٹھا تھا اس کے ساتھ کتابیں بھی پڑی تھیں وہ شکل سے بہت افسردہ لگ رہا تھا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد میں اس نوجوان کے قریب گیا ان سے ملا اور اس کے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا اس نوجوان سے کہا کہ میرے بیٹھنے پر آپکو تو کوئی اعتراض نہیں اس نے کہا نہیں میں نے اپنا تعارف کروایا کچھ رسمی گفتگو کی پھر اس نے بھی اپنا تعارف کیا کہا کہ میں یونیورسٹی کا طالب علم ہوں۔

اس نے کہا کہ میں روز یونیورسٹی سے چھٹی کے بعد یہاں آتا ہوں لیکن میں نے آپکو پہلے یہاں نہیں دیکھا، یوں گفتگو شروع ہوئی میں نے کہا میں تو روز یہاں اکیلے چہل قدمی کی لیے آتا ہوں لیکن آپ کو پہلی بار دیکھا آپ نے تو بتایا کہ میں میڈیکل کا سٹوڈنٹ ہوں لیکن آپکے پاس تو شاعری کی کتابیں ہیں۔ میرے سوال کے بعد اس نے ایک اداس شعر سنایا میں نے کہا واہ واہ۔۔ اس کے بعد اس نے دوسرا شعر سنایا پھر میں نے اس نوجوان سے پوچھا کہ یہ تو اچھی بات ہے کہ آپ شاعر بھی ہے اور میڈیکل کے سٹوڈنٹ بھی تو اس نے انکار میں سر ہلایا اداس آنکھوں سے کے ساتھ میری طرف دیکھا بولا شاعر نہیں ہوں۔ میں نے سوال کیا۔ آپ یہاں سٹڈی کے لیے آتے ہو؟ اس نے کہا نہیں بس ویسے باہر کی دنیا سے یہاں پر سکون ہے اور خاموشی ہے اس لیے میں نے کہا آپ کے پاس شاعری کی کتابیں ہیں آپ اپنی میڈیکل کورس کی کتابیں یہاں کیوں نہیں پڑھتے میرے خیال میں آپکو شاعری بہت پسند ہے۔ وہ خاموش بیٹھا تھا میری باتیں سن رہا تھا ایک گہری سانس لینے کے بعد اس نے کہا وہ آنکھیں یہ تو ان آنکھوں کا جادو ہے۔

میں نے اس نوجوان سے کہا اگر آپکی اجازت ہوں تو میں آپ سے دو تین اور سوالات پوچھوں۔۔ اگر اجازت ہو۔۔ میں نے اپنا پورا تعارف کروایا کہا میں فلاں دفتر میں کام کرتا ہوں اور کالم وغیرہ بھی لکھتا ہوں اگر آپ اپنی کہانی مجھے بتادے تو میرے علم میں اضافہ ہوگا اور تحریر بھی لکھوں گا۔ اس کہا آج کے بعد ہم دونوں دوست ہے لیکن ایک شرط پر اس نے طنزیہ انداز میں کہا آپ صحافی تو وہ سوالات بندے سے پوچھتے ہیں جن کا اسے خود بھی علم نہیں ہوتا۔ اس نے کہا میرے دو شرائط ہیں پہلا آپ اپنے تحریر میں میرا نام نہیں لکھوں میں نے کہا ٹھیک نہیں لکھوں گا لیکن وہ ڈرتا تھا کہا مجھے اعتبار نہیں ہے میں نے کہا ایک طرف آپ نے کہا کہ آج کے بعد ہم دونوں دوست ہے اب کہ کہتے ہوں کہ آپ پر اعتبار نہیں۔۔

اس نے کہا ٹھیک ہے دوست دوسری شرط اس نوجوان نے بتائی لیکن وہ میں آپ لوگوں کو بعد میں بتاؤ گا۔ اس نے اپنی کہانی شروع کی کہا کہ ایک دن ہماری یونیورسٹی میں ایک سیمینار تھا ظاہر سی بات ہے میں میڈکل کا طالب علم ہوں تو دوسری یونیورسٹیوں کی لڑکیاں اور لڑکے ہماری یونیورسٹی میں آۓ تھے۔ ایک بڑا سیمینار تھا۔ ہال میں بہت زیادہ تعداد تھیں۔ اس دوران میری نظر ایک لڑکی کی آنکھوں پر پڑ گئی اور اس لڑکی کی آنکھیں اتنی خوبصورت تھی کہ کیا بتاؤں میں عجیب کشمکش میں تھا کہ اس لڑکی سے کیسے ملوں گا ڈر لگ رہا تھا کہ ملوں گا تو کیا کہوں گا یہ تو باہر سے آئی ہے۔

میں اپنے ذہن میں کچھ لفظ تیار کررہا تھا کہ یہ کہوں گا پھر دل میں عجیب قسم کے وسوسے پیدا ہوتے تھے کہ کہیں ہنگامہ نہ ہوجاۓ میں عجیب کشمش میں تھا ہال میں جگہ بھی نہیں تھی میں کھڑا تھا اور لڑکے بھی کھڑے تھے اس دوران وہ میری آنکھوں سے اچانک غائب ہوگئی میں کافی پریشان ہوا خیر میں اس کو ڈھونڈ رہا۔ اس کی آنکھیں بہت خوب صورت تھی میں نے اس نوجوان سے سوال کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے میرا سوال کاٹ دیا اور بس اس لڑکی کی آنکھوں کی تعریفیں کررہا تھا۔ ساتھ ساتھ غمگین اداس شاعری بھی سناتا میں اس نوجوان کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا اور اس انتظار میں تھا کہ کیا ہوا تھا اس نوجوان کے ساتھ خیر وہ اپنی کہانی سنا رہا تھا میں نے کہا دوست جلدی کروں مجھ بس مجھے آخری منظر بتاؤ آخر کیا ہوا تھا اس دوران وہ نوجوان رونے لگا اس کی آنکھوں سے آنسوں نکلے میں نے کہا مرد روتا نہیں یہ تم کیا کررہے ہوں۔

اس نوجوان نے مجھ سے کہاکہ اس جیسی آنکھیں مجھے کہاں ملیں گی میں نے کہا یار حوصلہ کروں اپنا ٹیشو دیا کہا اپنے آنسو صاف کردو اس نے کہا کہ جس وقت ہال سے نکلی تو ایک بندہ اس کے ساتھ تھا میری ایک لڑکی دوست ہے میں نے اسے ریکویسٹ کیا کہ اس لڑکی کا پتہ کرلو کہ یہ کہا اور کونسی یونیورسٹی سے آئی ہے، پلیز آپ پوچھو اس لڑکی سے جب میری دوست گی اور بات کی اس خوب صورت آنکھوں والی لڑکی سے تو اس نے کہا میں فلاں یونیورسٹی سے آئی ہوں اور جو بندہ ہال سے اس لڑکی کے ساتھ نکلا تھا وہ اس کا ہونے والا شوہر تھا۔

بس یہ تھی ساری کہانی میں نے پوری کہانی سنی اور مسکرایا اس نوجوان سے سوال کیا اگر اس لڑکی کی آنکھیں خوب صورت نہیں تھی تو تم اس سے محبت کرتے وہ خاموش ہوگئے میں نے کہا چلو اٹھؤ آپ کی منزل دور ہے اور آپ آنکھوں کی خاطر اپنی سٹڈی کی بجائے شاعری کی کتابیں پڑھ رہے ہوں۔ میں نے اس نوجوان کو کہا کہ آپ نے مجھے دوست کہا تھا۔ آئندہ یہاں پر مت آنا یونیورسٹی کے بعد سیدھا اپنے ہاسٹل میں جاؤ پڑھو تعلیم حاصل کروں اس سے کچھ نہیں ہوتا اگر آپ خودکشی بھی کروگے، تعلیم چھوڑو گے یا یہاں آکے اپنا وقت ضائع کروگے تو کسی تو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گا۔ دوسری شرط اس نوجوان کی یہ تھی کہ جب بھی آپ میری کہانی پر تحریر لکھوں تو یہ عنوان دو وہ آنکھیں۔۔

Check Also

Tarbooz Ki Kahani Meri Zubani

By Mubashir Saleem