Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Ali Durrani
  4. Siasatdan Kyun Pakre Jate Hain?

Siasatdan Kyun Pakre Jate Hain?

سیاستدان کیوں پکڑے جاتے ہیں؟

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں جانور بھی انسانوں کی طرح باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک واقع یاد آیا کسی زمانے میں ایک آدمی کے پاس ایک مرغا تھا تو ایک دفعہ اس کا دل چاہا کہ اس مرغے کو ذبح کرے اور اس کو کھا لے لیکن اس کو وجہ سامنے نہیں آرہی تھی آخر اس نے یہ تدبیر سوچی اور مرغے کے سامنے یہ شرط رکھ دی کہ کل صبح اگر تم نے اذان دی تو میں تمہیں ذبح کر دوں گا۔ مرغا بے چارہ اپنے مالک کو دیکھتا رہا رات ہوگئی۔

مرغا صبح نیند سے بیدار ہوتے ہی سب سے پہلا کام جو وہ کرتا ہے اپنی آنکھوں کو کھولتا ہے اس کے بعد سر ہلاتا ہے اور تیسرا اپنے پروں کو کھول کر ہلاتا ہے اور اس کے بعد اذانیں دینا شروع کر دیتا ہے مالک کے حکم کے بعد جوں ہی مرغا صبح اٹھتا ہے اپنا سر ہلاتا ہے پروں کو ہلاتا ہے اور جوں ہی وہ اذان دینے لگتا ہے تو مرغے کو اپنے مالک کی بات یاد آتی ہے لہذا اس صبح کو وہ اذان نہیں دیتا۔

مالک بھی حیران و پریشان کہ مرغے نے تو میری شرائط پوری کر دی مالک پھر ایک اور شرائط یا تدبیر سوچتا ہے اور مرغے کے سامنے رکھتا ہے اسے کہتا ہے اچھا اگر کل صبح تم نے اپنے پَر ہلائے تو میں تمیں ذبح کر دوں گا اب مرغا بے چارہ دوبارہ حیران و پریشان ہو کے رہ گیا اب جب دوبارہ صبح ہوتی ہے مرغا جونہی نیند سے اٹھتا ہےاور وہ اپنا سر ہلاتا ہے لیکن وہ اپنے پَر ہلانے کے قریب ہوتا ہے تو اس وقت اس کو دوبارہ مالک کی بات یاد آتی ہے کہ اگر پر ہلائے تو وہ اسے ذبح کر دیگا۔ لہذا اس دفعہ اس نے پَر بھی نہیں ہلائے اور اذان بھی نہیں دی جب مالک نے دیکھا کہ اس نے ہماری دونوں شرائط پوری کر دی تو مالک نے مرغے کے سامنے ایک اور شرط رکھ دی، کہاں کہ اگر کل صبح اگر تم نے اپنی گردن ہلائی تو میں تمیں ذبح کر دوں گا اب دوسری رات بھی گزرتی ہے جونہی صبح ہوتی ہے تیسرے دن نہ وہ سر پلاتا ہے نہ پر ہلاتا ہے اور نہ اذان دیتا ہے۔

تیسرے روز مالک شدید حیران و پریشان کہ اس نے تو میری اس شرط کو بھی پورا کردیا مالک سوچ رہا تھا کہ ایسی کونسی کمزوری کو پکڑا جائے کہ جس کی بنیاد پر میں اس مرغے کو ذبح کر سکوں۔ مالک مرغے کو کہتا ہے کہ اگر کل صبح تم نے انڈا نہیں دیا تو میں تمیں ذبح کر دوں گا۔ اب ظاہری سی بات ہے کہ باقی شرائط تو وہ پورا کر سکتا تھا کیونکہ وہ اس کے اختیار میں تھا اب یہ ایسا کام ہے کہ یہ قدرت کی طرف سے تھا اور یہ مرغے کی بس میں نہیں تھا لہذا اس شرط کو وہ پورا نہیں کرتا اور مالک کو وجہ سامنے آجاتی ہے مرغا اپنی شرط ہار چکا ہوتا ہے اس طرح مالک مرغے کو زبح کرنے لگتا ہے تو مرغا اس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور بھاگنے لگتا ہے مرغا جب پیچھے دیکھتا ہے تو مالک بدستور اس کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔

بلا آخر مرغا بے چارہ رونے لگتا ہے اور اپنے مالک سے گویا ہوتا ہے کہ کاش میں تمھاری اس پہلی شرط کو نہ مانا ہوتا تو آج میری یہ حالات نہیں ہوتی۔ یہ سنے کے بعد مالک نے کہا کہ مت بھاگو میں تمیں ذبح نہیں کرونگا، مرغے نے مالک کو کہا کہ مجھے ذبح ہونے پر اس اب کوئی اعتراض یا افسردگی یا شرمندگی نہیں ہے بلکہ افسوس مجھے اس بات پر ہے کہ میں نے اتنے دن تمھارے ان تمام شرطوں کو مانا اگر پہلے دن میں تمھاری پہلی والی شرط کو نہیں مانتا اور میں بغاوت کر دیتا اگر اس وقت تو مجھے ذبح کر دیتے تو کم از کم برادری میں میری عزت ہوتی، میرے اپنے رشتہ داروں کے ہاں میری عزت ہوتی آنے والے نسلوں کی نگاہوں میں میری عزت ہوتی۔ لوگ مجھے اچھے نام سے یاد کرتے لیکن آج جب تم اگر مجھے ذبح کروگے اور اگر ذبح نہ بھی کرو لیکن آئندہ آنے والی جتنی بھی میری نسلیں ہوگی وہ یہی کہے گی کہ اس نے اپنے آپ کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ مالک کی ہر اس بات کو اس نے مان لیا جوکہ بلکل فطرت کے خلاف تھی۔

کیونکہ فطرت میں میرا اذان دینا تھا فطرت میں میرے پر کو ہلانا تھا فطرت میں میری گردن کو ہلانا تھا مرغے نے اپنے مالک کو کہا کہ یہ سب میں نے تمھاری خاطر نہیں کیے اگر اس وقت میں فطرت کی مانتا تو آج مجھے ایک عظیم مرتبہ ملتا مجھے ایک رتبہ ملتا آج میرا ایک نام ہوتا، ایک مقام ہوتا۔ لیکن میں نے فطرت سے روگردانی کی اور اس روگردانی کی وجہ سے آج میں زلیل اور رسوا ہو رہا ہوں اور میری جو آئندہ ہونے والی زندگی ہے میں رہو یا نہ رہو لیکن آئندہ آنے والے وقتوں میں ہر کوئی مجھے غلط ناموں سے پکارے گا ہر شخص مجھے غلط ناموں سے پکارے گا ہر شخص مجھے بزدل کہے گا اور میں میری جتنی بھی کہانیاں ہونگی اس میں میرا کوئی اچھا نام باقی نہیں رہے گا۔

بدقسمتی سے پاکستانی سیاستدانوں کی حالیہ صورتحال کا تناظر مرغے کی کہانی سے کچھ موازنے کی کوشش کرنی ممکن ہے، جیسا کہ مرغے کی کہانی میں ایک مرتبہ اپنے مالک کے ساتھ شرائط مخصوص کی گئیں تھیں اور مرغہ نے ان شرائط کو پورا کرتے ہوئے اختیار کیا، ویسے ہی سیاستدان بھی عوام کے سامنے انتخابی شعارات دینے کے بعد مخصوص شرائط اور وعدے کرتے ہیں۔

لیکن جیسے مرغہ نے اپنے مالک کو معاونت دینے کے بعد بھی شرائط پوری کرتے ہوئے اپنے حقوق کی حفاظت کی، اسی طرح سیاستدان بھی اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے محنت کرنے چاہیے۔ اگر سیاستدان عوام کے مفادات کے خلاف کام کریں گے یا ان کے حقوق کو نظر انداز کریں گے، تو عوام کیلئے ان کی اہمیت اور اعتماد ختم ہو جائے گی۔

اسی طرح، جیسے مرغہ نے اپنے مالک کی باتوں کی پیدائش میں اہمیت دی اور ان کے خلاف میں انصافی اور درست فیصلے کیے، سیاستدان بھی عوام کے لیے بے دغا باز ہونا ضروری ہے۔ ان کو اپنے عملی اقدامات میں اخلاق انصاف، اور عدل کے معیارات پر عمل کرنا ہوگا تاکہ عوام کی رہنمائی میں ان کے لیے بہترین ممکنہ حل پیش کیا جا سکے۔

اگر سیاستدانوں کو اپنے اصولوں اور وعدوں کے مطابق عمل کرنے کا ارادہ ہو، اور وہ عوام کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کو پہلے ستائش کریں، تو عوام بھی ان پر اعتماد کریں گے اور ان کے ساتھ مل کر ملک کے معاشرتی اور اقتصادی مسائل کے حل کے لیے کام کریں گے۔ اس طرح، مرغے کی کہانی سے ہمیں یہ سبق سیکھنے کو ملتا ہے کہ سیاست میں بھی اخلاقیات، مسئولیت، اور عدل کو برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

سیاست کے میدان میں آنے والے افراد کے لیے عوام کے مفادات اور اصولوں کو پیشِ نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بہت سے سیاستدان، حکمت عملی کی بجائے، عزت، شہرت، اور پیسے کو اہم ترین بنیادیات قرار دیتے ہیں۔ ان کے لیے سیاست صرف اور صرف انتخابات جیتنے کا ذریعہ ہوتی ہے، جس میں دھاندلی اور عوامی حقوق کے چھین جانے کی مختلف کوشیشیں کی جاتی ہیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan