Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Ali Durrani/
  4. Kahani Aik Siasatdan Ki

Kahani Aik Siasatdan Ki

کہانی ایک سیاستدان کی

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں جانور بھی انسانوں کی طرح باتیں کیا کرتے تھے۔ اس طرح سے مجھے ایک واقع یاد آیا کسی زمانے میں ایک آدمی کے پاس ایک مرغا ہوا کرتا تھا تو ایک دفعہ اس کا دل چاہا کہ اس مرغے کو ذبح کرے اور اس کو کھا لے لیکن اس کو وجہ سامنے نہیں آ رہی تھی کہ کونسی ایسی وجہ کو وہ اس کے سامنے رکھے کہ جس کی بنا پر وہ اس مرغے کو کھا لے۔ لہٰذا اس نے دل میں کئی تدابیر سوچیں اور آخر میں اس نے یہ تدبیر سوچی اور مرغے کے سامنے یہ شرط رکھ دی کہ کل صبح اگر تم نے اذان دی تو میں تمہیں ذبح کر دوں گا۔

مرغا بےچارہ اپنے مالک کو دیکھتا رہا رات ہوگئی۔ مرغا صبح نیند سے بیدار ہوتے ہی سب سے پہلا کام جو وہ کرتا ہے اپنی آنکھوں کو کھولتا ہے اس کے بعد سر ہلاتا ہے اور تیسرا اپنے پروں کو کھول کر ہلاتا ہے اور اس کے بعد اذانیں دینا شروع کر دیتا ہے۔ مالک کے حکم کے بعد جوں ہی مرغا صبح اٹھتا ہے اپنا سر ہلاتا ہے پروں کو ہلاتا ہے اور جوں ہی وہ اذان دینے لگتا ہے تو مرغے کو اپنے مالک کی بات یاد آتی ہے لہٰذا اس صبح کو وہ اذان نہیں دیتا۔

مالک بھی حیران و پریشان کہ مرغے نے تو میری شرط پوری کر دی مالک پھر ایک اور شرط یا تدبیر سوچتا ہے اور مرغے کے سامنے رکھتا ہے اس کو کہتا ہے کہ اچھا اگر کل صبح تم نے اپنے پرے ہلائے تو میں تمیں ذبح کر دونگا۔ اب مرغا بے چارہ دوبارہ حیران و پریشان ہو کے رہ گیا اب جب دوبارہ صبح ہوتی ہے مرغا جونہی نیند سے اٹھتا ہے اور وہ اپنا سر ہلاتا ہے لیکن وہ اپنے پَر ہلانے کے قریب ہوتا ہے تو اس وقت اس کو دوبارہ مالک کی بات یاد آتی ہے کہ اگر پر ہلائے تو وہ اسے ذبح کر دیگا۔

لہٰذا اس دفعہ اس نے پَر بھی نہیں ہلائے اور اذان بھی نہیں دی جب مالک نے دیکھا کہ اس نے ہماری دونوں شرائط پوری کر دی تو مالک نے مرغے کے سامنے ایک اور شرط رکھ دی، کہا کہ اگر کل صبح اگر تم نے اپنی گردن ہلائی تو میں تمیں ذبح کر دونگا۔ اب دوسری رات بھی گزرتی ہے جونہی صبح ہوتی ہے تیسرے دن نہ وہ سر ہلاتا ہے نہ پر ہلاتا ہے اور نہ اذان دیتا ہے۔ تیسرے روز مالک شدید حیران و پریشان کہ اس نے تو میری اس شرط کو بھی پورا کر دیا۔

مالک سوچ رہا تھا کہ ایسی کونسی کمزوری کو پکڑا جائے کہ جس کی بنیاد پر میں اس مرغے کو ذبح کر سکوں۔ مالک مرغے کو کہتا ہے کہ اگر کل صبح تم نے انڈا نہیں دیا تو میں تمیں ذبح کر دونگا۔ اب ظاہری سی بات ہے کہ باقی شرائط تو وہ پورا کر سکتا تھا کیونکہ وہ اس کے اختیار میں تھا اب یہ ایسا کام ہے کہ یہ قدرت کی طرف سے تھا اور یہ مرغے کی بس میں نہیں تھا لہٰذا اس شرط کو وہ پورا نہیں کرتا اور مالک کو وجہ سامنے آ جاتی ہے مرغا اپنی شرط ہار چکا ہوتا ہے۔

اس طرح مالک مرغے کو ذبح کرنے لگتا ہے تو مرغا اس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور بھاگنے لگتا ہے مرغا جب پیچھے دیکھتا ہے تو مالک بدستور اس کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔ بلآخر مرغا بے چارہ رونے لگتا ہے اور اپنے مالک سے گویا ہوتا ہے کہ کاش میں تمہاری اس پہلی شرط کو نہ مانا ہوتا تو آج میری یہ حالت نہیں ہوتی۔ یہ سننے کے بعد مالک نے کہا کہ مت بھاگو میں تمہیں ذبح نہیں کرونگا، مرغے نے مالک کو کہا کہ مجھے ذبح ہونے پر اب کوئی اعتراض یا افسردگی یا شرمندگی نہیں ہے۔

بلکہ افسوس مجھے اس بات پر ہے کہ میں نے اتنے دن تمہاری ان تمام شرطوں کو مانا اگر پہلے دن میں تمہاری پہلی والی شرط کو نہیں مانتا اور میں بغاوت کر دیتا اگر اس وقت تو مجھے ذبح کر دیتے تو کم از کم برادری میں میری عزت ہوتی میرے اپنے رشتہ داروں کے ہاں میری عزت ہوتی آنے والے نسلوں کی نگاہوں میں میری عزت ہوتی، لوگ مجھے اچھے نام سے یاد کرتے لیکن آج جب تم مجھے ذبح کرو گے اور اگر ذبح نہ بھی کرو لیکن آئندہ آنے والی جتنی بھی میری نسلیں ہوں گی وہ یہی کہیں گی کہ اس نے اپنے آپ کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ مالک کی ہر اس بات کو اس نے مان لیا جو کہ بلکل فطرت کے خلاف تھی۔

کیونکہ فطرت میں میرا اذان دینا تھا فطرت میں میرے پر کو ہلانا تھا فطرت میں میری گردن کو ہلانا تھا مرغے نے اپنے مالک کو کہا کہ یہ سب میں نے تمہاری خاطر نہیں کیے اگر اس وقت میں فطرت کی مانتا تو آج مجھے ایک عظیم مرتبہ ملتا مجھے ایک رتبہ ملتا آج میرا ایک نام ہوتا، ایک مقام ہوتا۔ لیکن میں نے فطرت سے روگردانی کی اور اس روگردانی کی وجہ سے آج میں ذلیل اور رسوا ہو رہا ہوں اور میری جو آئندہ ہونے والی زندگی ہے میں رہوں یا نہ رہوں لیکن آئندہ آنے والے وقتوں میں ہر کوئی مجھے غلط ناموں سے پکارے گا ہر شخص مجھے غلط ناموں سے پکارے گا ہر شخص مجھے بزدل کہے گا اور میں میری جتنی بھی کہانیاں ہونگی اس میں میرا کوئی اچھا نام باقی نہیں رہے گا۔

Check Also

Balay

By Mubashir Ali Zaidi