Aatish Kada Baku (7)
آتش کدہ باکو (7)

ماہر ارضیات Eichwald خود کو رام، کرشن، ہنومان اور اگنی کی پوجا کے ذکر تک محدود رکھتے ہیں، بنگال سول سروس کے جارج فورسٹر کے 1784 کے اکاؤنٹ میں، مربع ڈھانچہ تقریباً 30 گز کا تھا، جس کے چاروں طرف ایک نیچی دیوار تھی اور اس میں بہت سے اپارٹمنٹس تھے، ان میں سے ہر ایک میں گندھک کی آگ کا ایک چھوٹا طیارہ تھا جو "ہندو قربان گاہ کی شکل میں بنایا گیا" ایک چمنی سے نکلتا تھا، آگ کو عبادت، کھانا پکانے اور گرم جوشی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور اسے باقاعدگی سے بجھایا جاتا تھا۔
"آتش گاہ مندر ایک عام قصبے کے کاروان سرائے کے برعکس نظر نہیں آتا، ایک ایسی سرائے جس میں ایک بڑا مرکزی دربار ہوتا ہے، جہاں کارواں رات گذارنے کیلئے رکتا ہے، تاہم، کاروانوں سے الگ، مندر کے مرکز میں قربان گاہ ہے جس میں مندر کے لیے چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں، حاضرین اور ہندوستانی سنیاسی جنہوں نے اپنے آپ کو آگ کے فرقے کے لئے وقف کیا اور دیواروں پر کھڑے زائرین کے لئے"۔
ہم چوتھے کمرے کی طرف بڑھے، یہاں بھی اندھیرا۔۔ ہر کمرے میں اندھیرا تھا اور ہر کمرے میں پروجیکٹر اور جدید آلات کی مدد سے اس زمانے کے ماحول کی عکاسی کی گئی تھی جب یہ مندر آباد تھا، اس کمرے میں ہندووں کے بھوان گنیش یعنی ہاتھی کا مجسمہ نصب تھا اور سپیکروں سے منتر پھوٹ رہے تھے، گائیڈ نے ایک دیوار کی طرف اشارہ کرتے بتایا۔
"آتش گاہ پر کئی نوشتہ جات نظر آئیں گے، وہ سب سنسکرت یا گرمکھی پنجابی میں ہیں، سوائے ایک فارسی نوشتہ کے جو کہ بھگوان گنیش اور جوالا جی کے لیے سنسکرت کی دعا کے نیچے موجود ہے، اگرچہ فارسی نوشتہ میں گرائمر کی غلطیاں ہیں، لیکن دونوں نوشتہ جات میں 1745 عام دور (سموت/سنوت 1802/1802 اور ہجری 1158/1158) کی ایک ہی سال کی تاریخ ہے، ایک سیٹ کے طور پر، نوشتہ جات پر تاریخیں سموات 1725 سے لے کر سموات 1873 تک ہیں، جو 1668 عیسوی سے 1816 عیسوی تک کے عرصے کے مساوی ہیں، اس تشخیص کے ساتھ کہ یہ ڈھانچہ نسبتاً نیا لگتا ہے، کچھ اسکالرز نے 17ویں صدی کو اس کی تعمیر کا ممکنہ دور قرار دیا اور ایک پریس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مقامی ریکارڈ موجود ہیں کہ یہ ڈھانچہ باکو ہندو تاجر برادری نے شیروان شاہ خاندان کے زوال اور روس-فارس جنگ (1722-1723) کے بعد روسی سلطنت کے الحاق کے وقت کے آس پاس تعمیر کیا تھا، مندر میں سنسکرت (ناگری دیوناگری رسم الخط میں) اور پنجابی (گرمکھی رسم الخط میں) اس جگہ کی شناخت ہندو اور سکھوں کی عبادت کی جگہ کے طور پر کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ اسے جدید ہندو آگ دیوتا جوالا جی کے لیے بنایا گیا تھا، ہمالیہ میں جوالا جی کا ایک مشہور مزار ہے، جوالا مکھی کی بستی میں ہماچل پردیش، ہندوستان کے کانگڑا ضلع میں، جس سے یہ آتش گاہ مضبوط مشابہت رکھتی ہے"۔
پانچویں کمرے میں آذربائیجان کی تیل کی صنعت کو دیوار پر آویزاں چارٹ اور تصویروں سے نمایاں کیا گیا تھا، ایک طرف پڑا گول پائپ جو پائپ لائن کی نشاندہی تھی، گائیڈ نے ایک تصویر کی طرف اشارہ کیا، یہ کوئی ڈاک ٹکٹ تھا، اس کے بقول "سال 1919 میں باکو فائر ٹیمپل کو آذربائیجان کے ڈاک ٹکٹوں کے پہلے شمارے میں شامل کیا گیا، پس منظر میں تیل کے پانچ ڈیرک نظر آتے ہیں، دسمبر 2007 میں جاری کردہ ایک صدارتی حکم کے ذریعے آتش گاہ جو اب تک سرکاری طور پر "شیروان شاہ پیلس کمپلیکس اسٹیٹ ہسٹوریکل اینڈ آرکیٹیکچرل میوزیم ریزرو" سے منسلک تھا، کو تاریخی کمپلیکس کا درجہ دیا گیا، جولائی 2009 میں، آذربائیجان کے صدر الہام علییوف نے کمپلکس کی دیکھ بھال کے لیے ایک ملین منات کی گرانٹ کا اعلان کیا، اپریل 2018 میں، ہندوستان کی سابق وزیر خارجہ سشما سوراج نے یہاں وزٹ کیا تھا، یہ نام اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ سائٹ اب ختم ہونے والے قدرتی گیس کے میدان کے اوپر واقع ہے، جس کی وجہ سے ایک بار قدرتی آگ وہاں بے ساختہ جل گئی تھی کیونکہ گیس سات قدرتی طور پر زمینی سطح کے سوراخوں سے نکلی تھی، یہ آگ 1969 میں بجھ گئی تھی اور آج کمپلیکس میں لگنے والی آگ کو باکو سے لائی جانے والی گیس پائپ لائن کے ذریعے روشن کیا جاتا ہے، 1883 کے بعد سُرخانی میں پیٹرولیم پلانٹس کی تنصیب کے بعد مندر میں عبادت بند ہوگئی، اس کمپلیکس کو 1975 میں ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا، میوزیم کو دیکھنے والوں کی سالانہ تعداد 15,000 ہے، اس آتش گاہ کو 1998 میں گلنارا مہمندارووا نے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے نامزد کیا تھا، 19 دسمبر 2007 کو آذربائیجان کے صدر کے فرمان کے ذریعے اسے ریاستی تاریخی آرکیٹیکچرل ریزرو قرار دیا گیا۔
ہم چھٹے کمرے کی طرف بڑھے، جو بظاہر ایک عجائب گھر کم اور جانوروں کا کھیت زیادہ لگ رہا تھا۔ کمرے کے وسط میں دو گدھوں کے مجسمے کھڑے تھے اور ایک نہایت پرجوش مجسماتی انسان اُنہیں انتہائی محبت سے چارہ کھلا رہا تھا۔ منظر کچھ یوں لگ رہا تھا جیسے گدھے خوشی سے دم ہلا رہے ہوں اور آدمی اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی سمجھ رہا ہو کہ وہ گدھوں کو خوش رکھ رہا ہے۔
یہ کمرہ دیکھ کر باہر نکلے تو میں خود گدھے سے کچھ کم تھک چکا تھا، گروپ والے باقی کمرے ایکسپلور کرنا چاہرے تھے، تھکاوٹ باعث روزا بھی ایسے لگ رہی تھی جیسے اب اگر کوئی اور مجسمہ دیکھنا پڑا تو وہ خود پتھر بن جائے گی۔ پیاس کا عالم یہ تھا کہ ہر بوتل مجھے نیلے آسمان میں پانی کی پری لگنے لگی۔
گروپ اگلے کمرے کی طرف بڑھنے لگا تو روزا نے میرا ہاتھ پکڑا اور نہایت فلسفیانہ انداز میں کہا، "مجھے پیاس لگی ہے، میں مزید نہیں چل سکتی"۔ جیسے کوئی صدیوں بعد احساسِ تشنگی سے دوچار ہوا ہو، ستم یہ کہ پانی و دیگر لوازمات کیلئے باہر نکل کر ٹکٹ بوتھ کی طرف جانا درکار تھا، میں ایک لمحے کو سوچا اور گروپ ادھورا چھوڑ کر مرکزی مندر کی طرف چلے آئے، نگاہیں زائرین پر مرکوز تھیں کہ شائد کسی کے ہاتھ میں پانی کی بوتل نظر آئے، خوش قسمتی سے عین اسی لمحے ایک سردار جی نمودار ہوئے، ہاتھ میں ٹھنڈی پانی کی بوتل لیے، جیسے پانی کا فرشتہ۔
اس نے فراخ دلی سے بوتل ہماری طرف بڑھائی اور ہم نے اتنی ہی تیزی سے شکریہ ادا کرکے پکڑ لی۔ روزا نے بوتل پر ایسے حملہ کیا جیسے صحرائے تھر میں کنواں مل گیا ہو، آدھی بوتل پی کر کچھ سکون لیا، باقی میرے حوالے کی۔ میں نے بھی دو گھونٹ میں زندگی کو دوبارہ محسوس کیا۔
یوں لگا جیسے گدھوں کے کمرے سے نکلتے ہی ہم خود انسان بن گئے ہوں۔