Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Malik
  4. Trump Zelenskiy Mulaqat Aur Aalmi Siasat

Trump Zelenskiy Mulaqat Aur Aalmi Siasat

ٹرمپ زلنسکلی ملاقات اور عالمی سیاست

روس کی یوکرین پر جارحیت نے نہ صرف یوکرین بلکہ پوری دنیا کو ایک نئے سیاسی اور فوجی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ یہ جنگ صرف دو ممالک کے درمیان تنازعہ نہیں، بلکہ اس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ صدر ولودیمیر زیلنسکی کی قیادت میں یوکرین نے روس کے خلاف ایک بہادرانہ موقف اختیار کیا، جس نے نہ صرف اپنی قوم کو متحد کیا بلکہ دنیا بھر میں امن اور خودمختاری کے حامیوں کو بھی متحرک کیا۔

صدر زیلنسکی نے فرنٹ لائن سے اپنی قوم کی قیادت کرتے ہوئے ایک ایسی مثال قائم کی جو دنیا بھر کے لیڈروں کے لیے قابل تقلید ہے۔ ان کی ہمت اور عزم نے یوکرین کو روسی جارحیت کے خلاف مضبوطی سے کھڑا کر دیا۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی مدد سے یوکرین نے روس کو غیر متوقع طور پر ایک زبردست جھٹکا دیا۔ یہ مدد نہ صرف فوجی سازوسامان کی شکل میں تھی، بلکہ سیاسی اور معاشی پابندیوں کے ذریعے بھی روس کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔

یوکرین کی جنگ کا ایک اہم ضمنی اثر شام اور دمشق کی آزادی پر بھی پڑا ہے۔ روس کی توجہ یوکرین پر مرکوز ہونے کی وجہ سے شام میں اس کا اثر کمزور ہوا، جس نے شامی عوام کو اپنی آزادی کی جانب ایک نئی امید دی۔ یہ واضح ہے کہ روس کی کمزوری نے مشرق وسطیٰ میں بھی سیاسی توازن کو متاثر کیا ہے۔

دوسری طرف، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو بھی اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت میں امریکہ کی قومی مفادات کو ترجیح دی اور اپنے انتخابی وعدوں پر قائم رہنے کی کوشش کی۔ کسی بھی ملک کے صدر کو اپنی قوم کے مفادات کے تحفظ کے لیے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ تاہم، یوکرین پر روسی جارحیت نے دنیا بھر میں یہ خدشات پیدا کر دیے ہیں کہ اگر کوئی بڑی طاقت اپنے چھوٹے ہمسائے کی خود مختاری کو اس طرح چیلنج کر سکتی ہے، تو یہ عالمی امن کے لیے ایک خطرناک رجحان ثابت ہو سکتا ہے۔

یوکرین کی جنگ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ عالمی سیاست میں طاقت کا توازن کس قدر نازک ہے۔ اگر بڑی طاقتیں اپنے چھوٹے ہمسایوں کی خودمختاری کو تسلیم نہیں کرتیں، تو دنیا بھر میں اسی طرح کے تنازعات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یوکرین کی جنگ صرف ایک ملک کی جنگ نہیں، بلکہ یہ عالمی امن اور استحکام کے لیے ایک امتحان ہے۔

یوکرین پر روسی جارحیت کے بعد امریکہ اور یورپی یونین نے روس پر سخت معاشی پابندیاں عائد کیں۔ ان پابندیوں کا مقصد روسی معیشت کو کمزور کرنا اور اسے جنگ جاری رکھنے کی صلاحیت سے محروم کرنا تھا۔ تاہم، ان پابندیوں کے باوجود روس نے اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھیں۔

روس یورپ کو گیس کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہے۔ جنگ کے بعد یورپ نے روسی توانائی پر انحصار کم کرنے کی کوشش کی، جس سے عالمی توانائی کے بازاروں میں عدم استحکام پیدا ہوا۔ اس بحران نے یورپ کو متبادل توانائی کے ذرائع تلاش کرنے پر مجبور کیا۔

چین نے یوکرین جنگ کے دوران ایک محتاط موقف اختیار کیا۔ اگرچہ چین نے روس کی کھلے عام حمایت نہیں کی، لیکن اس نے روس کے ساتھ اقتصادی اور فوجی تعاون جاری رکھا۔ چین کی یوکرین جنگ پر پالیسی اس کی عالمی طاقت بننے کی خواہش کو ظاہر کرتی ہے۔

روس کی توجہ یوکرین پر مرکوز ہونے کی وجہ سے شام اور دیگر مشرق وسطیٰ کے ممالک میں اس کا اثر کمزور ہوا۔ اس سے شامی بحران میں ایک نئی تبدیلی آئی، جس نے شامی عوام کو اپنی آزادی کی جانب ایک نئی امید دی۔

یوکرین جنگ کے طویل المدتی ہونے کے امکانات ہیں۔ روس اور یوکرین دونوں اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور فوری طور پر کوئی سیاسی حل نظر نہیں آتا۔ جنگ کی طوالت سے یوکرین کی معیشت اور انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچے گا۔

جنگ کے باعث عالمی معیشت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ توانائی کے بحران، خوراک کی قلت اور سپلائی چین میں خلل نے دنیا بھر میں مہنگائی کو بڑھاوا دیا ہے۔

یوکرین جنگ نے روس اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات کو انتہائی کشیدہ بنا دیا ہے۔ اس کشیدگی کے باعث ایک نئے سرد جنگ کے دور کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، جس میں دنیا دو بلاکس میں بٹ سکتی ہے۔

یوکرین جنگ نے عالمی امن کے لیے ایک بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ اگر بڑی طاقتیں اپنے چھوٹے ہمسایوں کی خودمختاری کو تسلیم نہیں کرتیں، تو دنیا بھر میں اسی طرح کے تنازعات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

یوکرین جنگ صرف ایک علاقائی تنازعہ نہیں، بلکہ یہ عالمی سیاست، معیشت اور امن کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔ اس جنگ کے محرکات اور اثرات کو سمجھنے کے لیے گہرائی میں تحقیق کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں امن قائم کرنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا، تاکہ اسی طرح کے تنازعات سے بچا جا سکے اور عالمی استحکام کو برقرار رکھا جا سکے۔

آخر میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ صدر زیلنسکی کی قیادت اور یوکرین کی ہمت نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ چھوٹے ممالک بھی بڑی طاقتوں کے خلاف اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے لڑ سکتے ہیں۔ تاہم، اس جنگ کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جا رہے ہیں اور یہ ضروری ہے کہ دنیا بھر کے ممالک اس بحران کو حل کرنے کے لیے مل کر کام کریں تاکہ مستقبل میں اسی طرح کے تنازعات سے بچا جا سکے۔

Check Also

Trump Card Aur Bunyan Al-Marsoos

By Arif Anis Malik