Sunday, 30 June 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ansa Shehzadi
  4. Pakistani Drama Industry Ka Urooj o Zawal

Pakistani Drama Industry Ka Urooj o Zawal

پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کا عروج و زوال

لفظ ڈرامہ سنتے ہی سب سے پہلا لفظ جو ہمارے دماغ میں آتا ہے وہ "کہانی" ہوتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا میں جتنے بھی مذاہب وجود میں آئے ہیں وہ سب کہانیوں کی ہی بدولت آئے ہیں۔ تو پس اس سے ثابت ہوا کہ کہانی کسی بھی فلم، ڈرامہ، مذہب، اور ثقافت کی ترویج و ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ایک وقت تھا کہ پاکستانی ڈرامے پاکستان سمیت سرحد پار بھی پسند کیے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ بھارت جیسا ملک جہاں کی فلمی صنعت دنیا بھر میں اپنی پہچان رکھتی ہے وہاں بھی پاکستانی ڈراموں کے وقت گلیاں سُنسان ہو جاتی تھیں اور اسکی وجہ شاید نہیں یقیناً کہانیوں کا مضبوط اور منفرد ہونا تھا۔ پرائیویٹ چینلز کے آنے کے بعد اب ڈرامے دھڑا دھڑ بن تو رہے ہیں۔ مگر اب ایسا بہت کم دکھائی دیتا ہے کہ کسی ڈرامے کی کہانی منفرد ہو۔

آج کل ڈراموں کی کہانیاں محبوب آپکے قدموں میں اور سالی کے بہنوئی کے ساتھ غیر ازدواجی تعلقات کے گرد گھوم رہی ہیں اور اسی کے ساتھ کم و بیش ہر ڈرامے میں ایک مخصوص لو پیراڈائم دکھایا جا رہا ہے جسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لو پیراڈائم نے نوجوان نسل کو سپوئل کرکے رکھ دیا ہے۔ میڈیا کی ایک سوشل لرننگ تھیوری ہے۔ یہ تھیوری ہمیں بتاتی ہے کہ لوگ حقیقی زندگی میں وہی کام کرتے ہیں جو وہ میڈیا میں دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل ڈراموں میں جو کچھ دیکھتی ہے وہ اس کو پریکٹیکل لائف میں نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہے اور جب نوجوان نسل وہ سب جو ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے اس کو نافذ کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو ان کو فرسٹریشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کسی مفکرنے خوب کہا ہے کہ ڈرامہ کسی بھی معاشرے کی تہذیب اور اقدار کی عکاسی میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے اب پاکستانی ڈراموں میں جن اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ان کا پاکستانی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں۔ انٹرٹینمنٹ کے نام پر پاکستان میں گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے کلچر کو ڈراموں کے ذریعے نارملائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کلچر کا تعلق نہ پاکستانی تہذیب سے ہے اور نہ ہی اسلام سے۔ لیکن پھر بھی اس تہذیب کو نارملائز کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی ایک مشہور و معروف ڈرامہ سیریل "عشق مرشد" کو دیکھتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ جو کچھ اس ڈرامے میں دکھایا جا رہا ہے کیا اس کا تعلق حقیقی زندگی سے ہے؟ کیا پاکستان جیسے معاشرے میں ایسا ممکن ہے کہ ہم ایک اجنبی کو اپنے گھر جہاں بیٹیاں بھی موجود ہوں وہاں رہنے کی اجازت دے دیں؟ یہ سب لمحہ فکریہ ہے۔

اب جس حساب سے غیر معیاری ڈرامے بن رہے ہیں ان کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری بھی پاکستان فلم انڈسٹری کی طرح ٹھپ ہو جائے گی۔ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری اپنے زوال کے سفر کی طرف گامزن ہے اور اس سب سے بچنے کے لیے دور حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور رائٹرز معیاری اور منفر ڈرامے بنانے کے لیے جدوجہد کریں تاکہ ایک بہترین ڈرامہ انڈسٹری کو پروموٹ کیا جا سکے۔

Check Also

Syed Brahman Shah

By Zubair Hafeez