Aik Arab Rupay
ایک ارب روپے
بشیرا میرا پرانا دوست ہے عیال دار اور نہایت غریب آدمی ہے دن رات محنت مزدوری کرکے اپنے اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتا ہے کل صبح صبح میرے پاس آیا تو پریشان تھا پوچھنے پر جیب سے ایک اخباری ترا شہ نکالا اور مجھے دکھانے لگا جس میں کراچی کی ایک بیورکریٹ کی کوٹھی سے اربوں روپے، زیورات، بیرون ملک کرنسی کے برآمد ہونے کی خبر شائع ہوئی تھی ساتھ ہی برآمد شدہ مال کی تصویر بھی شائع ہوئی تھی خبر کے مطابق رقم اتنی زیادہ تھی کہ سٹیٹ بنک سے نوٹ گننے کی مشین منگوانا پڑی تھی۔ میرے لیے یہ خبر کوئی نئی نہ تھی اس طرح کی خبریں آتی رہتی ہیں اور پھر چند دن بعد خود بخود غائب ہو جاتی ہیں اور لوگ بھی بھول جاتے ہیں۔
میں نے بشیر سے پوچھا بھائی تمہارا اس خبر سے کیا تعلق ہے؟ تو وہ کہنے لگا یار میں نے کبھی زندگی میں پورا ایک لاکھ روپیہ اکٹھا نہیں دیکھا میں سوچ رہا تھا یہ ایک ارب کتنے ہوں گے؟ اور جس بندے کے یہ اربوں روپے برآمد ہوے ہیں وہ کیسے گنتا ہوگا؟ میں نے پوچھا یار آخر اس سے تیرا کیا مسئلہ ہے؟ اس نے جیب سے بجلی کا بل نکالا اور کہنے لگا یار اس ماہ جو بل آیا ہے یہ تو یہی آدمی ادا کر سکتا ہے جس کے پاس سے یہ رقم برآمد ہوئی ہے میری تو کل تنخواہ بھی اتنی نہیں ہے۔ پھر جیب سے سونے کا ایک زیور نکالا اور بولا یار یہ رکھ لو اپنے برے وقت کے لیے بچا رکھا تھا۔ میرا یہ بل ادا کر دو میں نے دیکھا تو واقعی اسکا بجلی کا بل اسکی اوقات سے زیادہ تھا۔ میں اسکا سارا دکھ سمجھ چکا تھا۔ میں نے اسے تسلی دی اور بل لیکر اپنے پاس رکھ لیا۔
میں نے اسکا موڈ ذرا اچھا کرنے کے لیے مذاقاََ پوچھا چھوڑو یار! یہ بتاو تمہیں پتہ ہے یہ ایک ارب روپے کتنے ہوتے ہیں؟ وہ تصویر دیکھتے ہوے بولا مجھے وزن کا تو اندازہ نہیں لیکن یہ ضرور پتہ ہے کہ میں اُٹھا نہیں سکوں گا۔ پھر کہنے لگا تم تو بنک میں رہے ہو بتاو کتنی دیر میں گن لو گے؟ مجھے میرے ایک بینکار دوست شیخ فواد صاحب نے اسی روز ایک تفصیل واٹس ایپ کی تھی میں نے اسکو بتانا شروع کیا۔ دیکھو بشیرے اگر کسی کو ایک ارب ایک ایک روپے کی شکل میں دئیے جائیں اور کہا جائے کہ انہیں گنو اور وہ شخص بغیر کسی وقفے کے دن رات بغیر کھاےُ پیئے اور سوئے گننا شروع کرے اور فی سکینڈ ایک روپیہ گنے تو یہ رقم گنتے گنتے تقریباََ بتیس سال لگ جائیں گے۔
فرض کیجیے ایک شخص یکم جنوری سن ایک عیسوی کو پیدا ہوا اور اس نے روزآنہ ایک ہزار روپے خرچ کرنا شروع کئے تو وہ تقریباََ ستائیس سو چالیس سال تک یہ رقم خرچ کر سکتا ہے یعنی سن ایک عیسوی سے لیکر دسمبر 2018ء تک اس نے پونے ارب ہی خرچ کئے ہیں اور بقیہ رقم سے مزید 722 سال تک ایک ہزار کے اخرجات روز کر سکتا ہے۔ فرض کیجئے ایک 10 سال کی عمر کے بچے کے اکاونٹ میں ایک ارب روپے جمع کروا دئیے جائیں، اور وہ بچہ روزانہ تیس ہزار روپے (30000) روپے اکاونٹ سے نکلوا کر کھائے پئیے، کھلونے خریدے، رشتہ داروں میں بانٹے یا ان نوٹوں سے چڑیاں طوطے بنا کر اڑا دے۔ پھر دوسرے دن تیس ہزار نکلوائے اور دل کھول کر خرچ کرےاورپھر تیسرےچوتھےاسی طرح روزانہ تیس ہزار روپے خرچ کرنے کا عمل مسلسل جاری رکھے۔ حتیٰ کہ جوان ہو، ادھیڑ عمری اور پھر بڑھاپے تک پہنچ جائے اور پھر 100 سال کی عمر تک پہنچ کر دنیا سے رخصت ہوجائے تب بھی اس کے اکاونٹ میں تقریباً، ڈیڑھ کروڑ روپے باقی بچ رہیں گے۔
اگر آج کی سب سے بڑی کرنسی میں تمہیں ایک ارب روپے مل جائیں تو اتنے وزنی ہوں گے کہ اپنے سر پر اٹھانے سے بھی قاصر ہوگے نہ تم گن سکتے ہو نہ سنبھال سکتے ہو نہ یہ وزن اُٹھا سکتے ہو بس دیکھ سکتے ہو جیسے کہ بنک میں پڑی کرنسی کو صرف دور سے دیکھا ہی جا سکتا ہے۔ میں نے بشیرے کو غور سے دیکھا اور پوچھا سمجھ آئی کوئی بات؟ اب سوچو یہ تو تھی صرف ایک ارب کی بات یہاں تو خبر کے مطابق کئی ارب برآمد ہوے ہیں اور اکثرہوتے رہتے ہیں۔
بشیرا حیران پریشان کبھی خبر پڑھتا تو کبھی میرا چہرہ دیکھتا۔ پھر بولا کاش مجھے بھی کہیں سے ایک ارب ہی مل جائیں تو پوری زندگی بجلی کے بل سے تو نجات ملے۔ کہنے لگا یار یہ اتنے پیسے ان لوگوں کے پاس کہاں سے آتے ہیں؟ تومیں نے اسے بتایا کہ چند لوگ بہت سے لوگوں کا حق کھا جاتے ہیں اور اسےمشہور فلاسفر سقراط کی کہانی سنائی کہ "سقراط نے بتایا کی جب میں چھوٹا تھا تو مجھے جلدی اُٹھنا پسند نہیں تھا۔ میری ماں کو میری اس عادت سے نفرت تھی۔ کیونکہ اسکی خواہش تھی وہ مجھے ایک دن ایک امیر تاجر دیکھنا چاہتی تھیں۔ ایک دن میری ماں مجھے ایک استاد کے پاس لے گئیں تاکہ وہ مجھے جلدی اٹھنے کے فوائد بتاے۔ استاد نے کہا سقراط میں تمہیں ایک خوبصورت کہانی سناوں گا اور تم بتاو گے کہ تمہیں اس سے کیا فائدہ ہوا؟ سقراط نے کہا ٹھیک ہے! استاد نے کہا دو پرندے تھے ایک جلدی جگا اور کیڑے مکوڑے خود بھی کھائے اور اپنے بچوں کے لیے بھی اکھٹے کر لایا۔ دوسرا دیر سے جاگا اور اسے کھانے کو کچھ نہ ملا کیونکہ پہلا پرندہ سب لے جاچکا تھا۔ پھر پوچھا بتاو سقراط کہانی سے آپ کو کیا سبق حاصل ہوا؟ سقراط نے جواب دیا: جلدی جاگنے والے پرندے دوسرے پرندوں کا حصہ بھی کھا جاتے ہیں"۔
سقراط کا جواب درست تھا نیند ہی سونے کا نام نہیں بلکہ بے خبری اور خاموشی کے سبب بھی آپکا حصہ کھا لیا جاتا ہے اور آپکو پتہ ہی نہیں چلتا ہماری خراب معیشت کی شاید یہی وجہ ہے جب ہم سو رہے ہوتے ہیں تو یہ جاگ رہے ہوتے ہیں اپنی بہنوں اور بھائیوں کا حق کھا رہے ہوتے ہیں اپنے عہدوں اور رتبوں کے زور پر ناجائز کام کرارہے ہوتے ہیں کم بولی پر ٹھیکے دلوا رہے ہوتے ہیں۔ لوگوں کی اور سرکاری اراضی پر قبضے کر رہے ہوتے ہیں۔
چائنہ کٹنگ میں مصروف ہوتے ہیں ہر طرف سے رشوت اور کمیشن کما رہے ہوتے ہیں اپنے بنک سے لیے سابقہ قرضے معاف کرا رہے ہوتے ہیں اور نئے قرض لے رہے ہوتے ہیں یہ سب اور ان جیسے بیسیوں کام ایسے ہیں جو یہ افراد اپنا استحقاق سمجھ کر کرتے ہیں اور ہم کھلی آنکھوں سو رہے ہوتے ہیں۔ مجھے ان پر کوئی حیرت نہیں ہے ضرورتیں تو شاید محدود ہوتی ہیں لیکن خواہشیں لا محدود ہوتی ہیں جیسے بھی ہو جہاں سے بھی ہو بس پیسہ اکھٹا کرنا ہے۔ اگر ساری دنیا کے کاغذ، نوٹ بن جائیں تو یہ ان نوٹوں کو اکٹھا کرنے کا سوچتے سوچتے مر جائیں گےلیکن قناعت ہرگز نہ کریں گےان کا طمع اور لالچ بڑھتا ہی چلا جاے گا یہاں تک کہ مال و دولت جمع کرتے کرتے یہ اپنی قبروں تک جا پہنچیں گے۔
بشیرے نے کہا یار جس دولت کو یہ گن نہیں سکتے اسکا حساب اللہ کو کیسے دیں گے اور یہ اتنے پیسے کا وزن کفن میں ڈال کر کیسے لے جائیں گے؟ قبر کا سائز تو بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ میں اسے دیکھ رہا تھا اسکا بجلی کا بل سامنے پڑا اسکا منہ چڑا رہا تھا۔ میں نے کہا بشیرے قبر کا سائز جو بھی ہو بے فکر رہو وہاں کسی کو بھی بجلی کا بل نہیں آے گا۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا اور بولا کیا واقعی انہیں وہاں بھی بجلی کا بل نہیں آے گا؟
میں نے کہا بشیرے وہاں ان کا کوئی رتبہ کام نہیں کرے گا۔ کوئی وکیل ساتھ نہ ہوگا کوئی دولت ساتھ نہ ہوگی وہاں سے بھاگنے کا راستہ بھی کوئی نہیں ہوگا وہ چیخ چلا بھی نہ سکیں گے اور نہ کوئی جھوٹ بول کر جان چھڑا پائیں گے۔ وہاں کوئی ان کی مدد کو نہ پہنچے گا وہاں تو صرف حساب ہوگا اور وہ بھی ذرے ذرے کا حساب ہوگا کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اس سوال کاجواب بھی ضرور پوچھا جاے گا۔ یہی وہ اللہ کی عدالت ہے جس کا وعدہ میرے رب نے اپنے بندوں سے فرمایا ہے۔