Urdu Adab Mein Nisai Adab Ki Ahmiyat o Afadiat
اُردو میں نسائی ادب کی اہمیت و افادیت
برصغیر کا روایتی معاشرہ ہو یا یورپ کا آزادانہ لبرل ماحول، مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں ازل سے ہی وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگا رنگی نظر آتی ہے۔ مرد و زن دونوں کا وجود لازم و ملزوم ہے۔ ایک سکے کے دو رخ اور ایک گاڑی کے دو پہیے، جیسے پھول میں خوشبو کا ہونا اور جسم کے لیے روح کا ہونا لازم ہے بالکل اسی طرح مرد کے لیے عورت کا وجود بھی ضروری ہے۔ گھر کی چاردیواری سے لے کر سرحدوں تک اور سرحدوں کے دفاع سے لے کر ادب کی دنیا میں نام پیدا کرنے تک عورت کا وجود ایک مرکزی کردار کا حامل رہا ہے۔
عقل اور شعور کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں اور نہ ہی ہمارا مذہب ہمیں صنفی امتیاز کی ترغیب دیتا ہے۔ لیکن صد حیف! وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک قالب دو جان سمجھے جانے والے دو افراد میں مفاہمت کی جگہ مزاحمت نے لے لی۔ اس کی پہچان اور شناخت کو معدوم کرنے کے لیے اسے پدر سری معاشرہ میں کم عقل، ضعیف العقل، ناقص العقل، پھوہڑ اور بیوقوف جیسے القابات سے نواز کر احساس کمتری میں مبتلا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔
مرورِ ایام میں عورت اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے کمر بستہ ہوئی اور اس نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ بقا اور شناخت کی یہ جنگ آسان نہ تھی لیکن نا ممکن بھی نہ تھی۔ کسی کو تو بارش کا پہلا قطرہ بننا تھا۔ مردانہ استحصال کے خلاف مزاحمتی اور احتجاجی رویہ ابھر کر سامنے آیا۔ حقوق نسواں کے حصول کے لیے آواز بلند کرنا تانیثیت کہلاتا ہے۔ جب کہ عورت کے جذبات و احساسات کو عورت کی طرح محسوس کرنا، سوچنا اور ترجمانی کرنا نسائیت کہلاتا ہے۔
ہمارا المیہ ہے کہ عورت کے شاہکار ادب کو بھی وہ مقام حاصل نہیں رہا جو ایک مرد کے غیر معیاری ادبی فن پارے کے حصے میں آیا۔ خواتین قلم کاروں نے اپنی تخلیقی ادبی خدمت کی وساطت سے متنوع موضوعات کے ذریعے گونا گوں مسائل زیست کو قاری تک پہنچانے کا فریضہ بخوبی سر انجام دیا ہے۔ ان کی ادبی خدمات پر اگرچہ کافی تحقیقی کام ہو چکا ہے اور بے شمار جہات پر اسکالرز، نت نئے مرکزی خیالات اور کرداروں کی سوچ و عادات سامنے لا چکے ہیں۔ لیکن اکیسویں صدی میں میں خواتین کے نسائی افسانوی ادب میں مزید تحقیق کی گنجائش محسوس کرتے ہوئے تحقیقی دائرہ کار کو بڑھانے کی ضرورت درپیش رہی۔
اکیسویں صدی میں خواتین نثری ادب اور شاعری کے میدان میں اپنا بیش بہا حصہ ڈالنے کے باوجود ابھی تک قاری کے سامنے اس طرح آشکار نہیں جس طرح انہیں ہونا چاہیے جو کہ ادب کا تقاضا ہے۔ میری دانست میں اکیسویں صدی میں ایک مکمل نسائی ادب، ادب کے قارئین کے لیے اشد ضروری ہے۔
اکیسویں صدی تک اردو ادب کی نسائی تاریخ کے حوالے سے خاطر خواہ کام میسر نہ ہونے کی وجہ سے خواتین ادیب اور شاعرات کے کارنامے مناسب انداز میں قاری تک نہ پہنچنے کی وجہ سے قاری ابھی تک ادب میں مرد ادبا و شعرا کو ہی اہمیت دیتے رہے ہیں۔
اکیسویں صدی کے نثری ادب کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ آج نسوانی ادب کو تخلیق کرنے والی موجود ہیں۔ عورتوں کے سر سید کہلانے والے علامہ راشد الخیری نے اپنے دور میں ان کے لیے خوب لکھا۔ کیونکہ اس دور میں عورت اپنے نام کی بجائے کسی مرد کے نام کا استعمال کرتے ہوئے لکھنے کی جسارت کرتی اور فلاں کی ماں، فلاں کی بہن، فلاں کی زوجہ کے نام سے لکھتیں۔ آج وہ جمود نہیں رہا ہے۔ آج کی عورت کو مرد کے نام کی عینک پہننے کی ضرورت نہیں رہی۔
آج کی عورت آزادانہ حیثیت سے اپنے نام کے ساتھ حقوق نسواں کے حصول اور مرد اساس معاشرے میں عورت پر ہونے والے ظلم وستم کی داستان مردوں کے شانہ بشانہ افسانوی و غیر افسانوی فکشن اور جملہ اصناف شعر و سخن میں بلا خوف و خطر اور بے باکانہ انداز میں رقم کرتے ہوئے اور ادب کی خدمت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے اپنی ایک ایسی منفرد شناخت قائم کرتی نظر آتی ہے جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔
نسائی ادب سے مراد صرف یہ نہیں کہ خواتین قلم کاروں کا لکھا ہوا ادب۔ خواتین قلم کاروں میں سے عصمت چغتائی نے تو مردانہ، وار لکھا ہے اور ان کی تحریروں میں نسائیت سے زیادہ مردانیت ہے۔ اسی طرح پریم چند ایک مرد تخلیق کار تھے مگر ان کی تحریروں میں نسائیت پائی جاتی ہے بلکہ پریم چند کے بے شمار افسانے اور ناول تو نسائی عنوانات کے حامل ہیں۔
جب بھی کوئی ادبی تحریک منظر عام پر آتی ہے اس کے زیر سایہ لکھنے والے ہر سو نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسے لکھاری بھی سامنے آئے ہیں کہ انہوں نے اپنا اسلوب ترک کرکے تحریک کے زیر اثر لکھنا شروع کر دیا اور پھر وقت نے یہ بات ثابت کی کہ بعد میں ایسے ادبی سرمائے کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہوگئی ہے۔
اگر ہم مثال کے طور پر رومانوی تحریک کی بات کریں تو اکثر و بیشتر یہ سننے میں آتا ہے کہ اردو ادب میں رومانوی تحریک شاعر رومان اختر شیرانی سے شروع ہوئی اور اختر شیرانی پر ختم ہوگئی۔ یہ اختر شیرانی ہی تھے جنہوں نے اپنی شاعری میں براہ راست عورتوں سے مخاطب ہونے کی جسارت کی۔ دیگر معنی میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ رومانوی شاعری اصل میں نسائی شاعری ہی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے رومانوی تحریک میں نسائیت ہی نسائیت ہے۔ یہ بات بھی حرف آخر نہیں ہے کہ کسی تحریک سے متاثر ہو کر لکھنے والے بعد میں اپنا اصل اسلوب بھول ہی جاتے ہیں۔
رومانوی تحریک کے ردعمل میں نمودار ہونے والی ترقی پسند تحریک ایک ایسی تحریک تھی جس میں بے شمار مصنفین و شعرا نے حصہ لیا مگر وہ اپنی پہچان بعد میں بھی برقرار رکھنے میں کام یاب ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر پنپنے والا کافی زیادہ ادبی سرمایہ جو کبھی ادب عالیہ تھا مگر وقت نے اسے ردی بنا دیا۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر لکھنے والے وہی ادیب دوبارہ پذیرائی حاصل کر سکے جو اپنے اسلوب کو ہر دور کے مطابق ڈھالنے میں کام یاب ہو سکے۔ ترقی پسندتحریک کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب ہندوستان میں رومانوی تحریک بھی زوروں پر تھی۔
اُردو ادب کے بے شمار قلم کار رومانوی تحریک سے متاثر ہو کر ادب تخلیق کر رہے تھے۔ ہندوستان کے شاعر رومانوی تحریک کو ترقی دینے میں مصروف عمل تھے اور اس طرح وہ رومانوی میدان میں دھوم مچا رہے تھے۔ اردو شاعری رومانیت کے زیر اثر ہواؤں میں اڑ رہی تھی۔ ایسے میں ترقی پسند تحریک کا ہی خاصہ تھا کہ اس نے رومانویت سے ترقی پسندیت کی جانب مائل کر دیا اور حقیقت پسندی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ تحریک چاہے کوئی بھی ہو اس میں تسلسل قائم رکھنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ادبی تحاریک کا اثر قبول کرنے والے نسائی ادب کی اساسی خصوصیت ہے کہ بیشتر نسائی ادب میں مرد گم نام کرداروں میں نظر آتا ہے، یوں نہیں کہ مرد کا وجود ختم ہوجاتا ہے لیکن مرد کا کردار پس پردہ ہوجاتا ہے۔ نسائی ادب کی کوئی بھی جہت نثری، شاعری، تنقید یا تحقیق میں مرد کا کردار پلاٹ میں یوں نہیں ابھر کر سامنے آتاکہ جس طرح سے آنا چاہیے یا جہاں کہیں وہ سامنے جلوہ افروز ہوتا بھی ہے تو کار فرما کوئی نہ کوئی خاتون یا کسی نسائی کردار کے مرہون منت رہتا ہے، جیسے اس کی اپنی کوئی شناخت ہی نہ ہو، ادب کا یہ رویہ کہاں تک درست ہے یا اس کی سمت کس ڈگر پر ہے اس کا فیصلہ تو وقت اور اردو اب کے ناقدین ہی طے کریں گے۔
اگر ہم بات کریں تنقیدی و تحقیقی میدان میں خواتین کے حصے یا خدمات کی ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ دور میں عورتیں کسی صورت بھی مردوں سے کم نہیں ہیں۔ پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی کا دورہ کر لیں ہر جماعت یا کورس میں طالبات کی تعداد طلبہ سے زیادہ ہی نظر آئے گی۔ اگرچہ تعلیمی میدان میں طالبات بازی لینے میں کام یاب ہوگئی ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ادبی میدان میں بھی تخلیقی معرکے سر انجام دینے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔
ماضی کی طرح عصر حاضر کے ترقی یافتہ دور میں بھی ہم عورت کو اس کا وہ مقام دینا ہی نہیں چاہتے جس کی وہ اصل میں حق دار ہوتی ہے۔ ایک عورت جب زیادہ علم اورفہم و شعور حاصل کر لیتی ہے تو ہم متعصبانہ رویہ روا رکھتے ہوئے اس کی قدر پھر بھی نہیں کرتے کیوں کہ ہم اپنے آبا کے بیان کئے ہوئے اصولوں پر ہی چلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
میری دانست میں موجودہ نسائی ادب حقیقی نسائیت کو منظر عام پر لا رہا ہے۔ ماضی کا ادب نسائیت کے روپ میں مردانہ ادب ہی تھا۔ وہ ادب جنسی پہلوؤں یا مظلومیت کو مد نظر رکھ کر تخلیق کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ ہر مرد کی ذات میں ایک عورت بطور ماڈل (نمونہ) اور ہر عورت کی ذات میں ایک مرد بطور ماڈل (نمونہ) چھپا ہوا ہوتا ہے اور دونوں جنسوں کے قلم کار اندرونی خفیہ جنسِ مخالف سے متاثر ہوتے ہیں۔
مرد اور عورت قلم کار دونوں ہی اپنی ذات کے اندر چھپے ہوئےعورت اور مرد کو منظر عام پر نہیں لانا چاہتے کیوں کہ ہر انسان اپنی اصلیت کے کمزور پہلو کو سامنے نہیں لاتا۔
اکیسویں صدی کے نثری ادب میں سیاسی حالات و واقعات کی بھرپور عکاسی ہورہی ہے۔ چونکہ ادب کا دامن کافی وسیع ہے۔ اس میں ہر طرح کے موضوعات کو جذب کرنے کا حوصلہ ہے اس لیے اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی کہ کون سے موضوعات کا ذکر یہاں ہوگا اور کن کا ممکن نہیں۔ یہ بات جدید ادب کی اہمیت میں اضافہ کے لیے کافی ہے کہ آج کے ادب میں اتنی کشش و طاقت ہے کہ یہ ہر طرح کے موضوعات کی پیش کش کے لیے موزوں ہے۔