Syed Brahman Shah
سید برہمن شاہ
سید پرستی برہمن ازم کی ختنہ شدہ شکل ہے۔۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ برہمنوں کی جگہ سیدوں نے لے لی ہے اور شودروں کی جگہ غیر سید مسلمانوں نے، باقی ڈھانچہ وہی ہے۔۔
خود کو برہمنوں کی طرح مقدس باور کروایا جاتا یے۔۔ جیسے یہ دیوتاؤں کی نسل سے ہوں، وشنو نے جیسے شودروں کو پاؤں سے بنایا تھا سیدوں کے ہاں باقی اجلاف اقوام پاؤں کے لیئے بنی ہیں۔۔ انھیں برصغیر میں مرید بھی ایسے ہی ٹکرے، جو پرستش کی حد تک ان کے آگے جھک گے۔۔ برہنموں کی پرستش ان کے جینز میں ہزاروں سال سے چلی آرہی تھی جو مسلمان ہونے کے بعد سید پرستی میں بدل گی۔۔
میں نے خود کئی لوگوں کے منہ سے سنا ہے جو خود کو سیدوں کا کتا کہتے ہیں۔۔ اس سے بڑھ کر انسانیت کی توہین کیا ہوگی کہ وہ نسل کی بنیاد پر دوسرے انسان سے اتنا کمتر محسوس کرے کہ خود کو اس کا کتا کہلوائے۔۔
یہاں سید ڈس آرڈر کا شکار واعظین عقیدت میں گلے پھاڑ پھاڑ کے کہتے ہیں۔۔ سیدوں سے ہمارا کیا مقابلہ۔۔ وہ بلند درجے کے ہیں۔۔ کیا نسل کی بنیاد پر بلند درجہ ملتا ہے۔۔ اور مقابلہ کیوں نہیں۔۔ انسان نہیں ہو کیا تم۔۔ کیا تمھارے پاس دماغ نہیں ہے۔۔ پھر کیوں نہیں مقابلہ۔۔ میرے نزدیک ایک موچی اور سید دونوں انسان برابر ہیں۔۔ رہ گے سادات کی عزت کا درس دینے والے میں نسل کی نہیں انسان کی عزت کا قائل ہوں اگر بہت ہی کسی کو شوق چڑھا ہے سید کہلوانے کا تو بتادوں یہاں کے ننانوے فیصد سید جعلی ہیں۔۔ ایک فیصد کا ڈی این اے عرب سے میچ نہیں کرتا اور اس سے دلچسپ بات یہ کہ۔۔ برصغیر کے سیدوں کا ڈی این عرب سے میچ کرنا دور کی بات ان کا ایک دوسرے سے بھی میچ نہیں کرتا۔۔ بنگال کے سید اور پنچاب کے سید کے y chromosomes میں وہی فرق نظر آئے گا جو ایک مغل اور آرائیں کے ڈی این اے میں نظر آنا چاہیے۔۔ the y chromosomes of self indentifie sayyids in indo pak sub continent کے نام سے ایک ریسرچ آرٹیکل پڑا ہے گوگل پر۔۔ پڑھ کر سید زاد ہونے کے برہم کے پندراں طبق روشن ہو جائیں گے۔۔
برہمن خود کو شودروں کے ہاتھ لگانے کو جوٹھا تصور کرتے تھے۔۔ ان کو خود سے چھونے نہیں دیتے۔۔ یہاں بھی یہی رواج ہے۔۔ سیدزادی سے نکاح نہیں ہوسکتا۔۔ کس نے کہہ دیا نہیں ہو سکتا بھئی نکاح۔۔ ارے ہماری نسل خراب ہو جائے گی۔۔ اس لیئے سید زادی کا نکاح غیر سید سے نہیں ہوسکتا۔۔
لے دے ایک گھسی پٹی دلیل رہ جاتی ہے کہ امام موسیٰ کاظم نے اپنی اٹھارہ بیٹیوں کی شادی نہیں کروائی تھی اس وجہ سے کہ انھیں سید داماد نہ مل سکے۔۔ پہلی بات یہ کہ یہ عمل ہے ہی غیر فطرتی کہ کوئی اپنی بیٹیوں کو گھر بٹھا دے اس واسطے کے اس کو اپنی ذات میں رشتہ نہیں ملا۔۔ دوسری بات یہ کہ امام موسیٰ کاظم سے منسوب راویت ہے ہی جھوٹی۔۔ کئی اہل تشیع علماء نے اس کی تردید کی ہے۔۔
اس کے مدمقابل ایک مستند روایت اہل تشیع کی کتاب سے پیش کرتا ہوں۔۔ اختیار معرفتِ الرجال اہل تشیع کی ایک مستند اسماء الرجال کی کتاب ہے۔۔ کتاب کے صفحہ نمبر 586 پر امام جعفر صادق کا ایک واقعہ درج ہے کہ۔
امام جعفر کو مدینے کا گورنر کہتا ہے۔۔ آپ کو آپ کے ایک گناہ کی وجہ سے اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔۔
امام نے کہا کونسا گناہ کردیا میں نے۔۔
گورنر نے کہا۔۔ آپ نے اپنی بیٹی کی شادی بنو امیہ کے ایک نوجوان سے کردی ہے۔۔
امام نے جواب دیا۔۔
میں نے وہی عمل کیا ہے جو رسول ص نے کیا تھا۔۔
یعنی حضور نے اپنی صاحبزادی کی شادی حضرت عثمان جو بنو امیہ سے تھے ان سے کی تھی۔۔ حضور نے اپنی دو بیٹیوں کی شادی غیر سید اور اموی مرد سے کر رہے ہیں۔۔ اور یہاں چند نوخیز ذاکرین اچھل اچھل کر ہمیں بتا رہے ہوتے ہیں۔۔ سید زادی کا غیر سید سے نکاح حرام ہے۔۔
اس سے بڑھ کہ یہ کہ جو ان بے چاری سید زادیوں پر گزرتی ہے وہ الگ ہی داستان ہے۔۔ کئی سیدوں کی گھر کی بچیاں اسی مسلم برہمن ازم کی بھینٹ چڑھ کر بغیر شادی کے بڑھاپے کی سولی پر لٹک جاتی ہیں۔۔ کئی سید زادیاں سید لڑکا نہ ملنے کی وجہ سے کنواری رہ کر اپنی جوانی برباد کرلیتی ہیں۔۔ ان کے سرپرست سید ڈس آرڈر میں مبتلا ہونے کے باعث نہیں سوچتے کہ وہ جو جس من گھڑت واہمے میں مبتلا ہیں اس سے ان کی انا کو تسکین تو پہنچ سکتی ہے مگر اس کی بچی کی زندگی تباہ ہو رہی ہے۔۔ وہ کسی سید رشتے کی انتظار میں بیٹھے بیٹھے بال سفید کر رہی ہے۔۔ عموما کزن میرج کا رواج ہے سادات گھرانوں میں۔۔ لڑکون کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ غیر سید سے شادی کرسکتے ہیں مگر لڑکیوں کو نہیں تو عموما لڑکے خاندان سے باہر شادی کرتے ہیں جس کے باعث سید زادہ ساری زندگی بی اماں بن کے کنواری ہی زندگی گزارتی ہے۔۔ غالبا ڈان یا ٹریبون میں ایک سید گھرانےسگ سے تعلق رکھنے والی لڑکی کا آرٹیکل Being sayyid zadi not to be pride کے نام سے چھپا تھا۔۔ اسے پڑھ کر میں ایک دفعہ سن ہوگیا تھا۔۔ کہانی مانسہرہ کی ایک سید زادی کی تھی۔۔ جو اپنے کلاس فیلو جو غیر سید تھا اس سے شادی کرنا چاہتی تھی جب اس کے کلاس فیلو نے اس کے گھر رشتہ بھیجا تو سیدزادی کے باپ کی کہا تمھاری ہمت کیسے ہوئی یہاں رشتہ بھیجنے کی۔۔ تم سے اچھا ہے کہ میں کسی کتے سے رشتہ کرواؤں اپنی بچی کی۔ اور لڑکی کی شادی اس سے پچیس سال بڑے ادھیڑ عمر کے سید کزن سے کرنے پر تل گیا۔۔ جب اس لڑکی نے گھر سے بھاگنے کی کوشش کی تو سید باپ نے اپنی بیٹی کو فائر مار دیا جس کے باعث وہ زخمی ہوگی مگر اگلے دن خبر پھیلی کہ بندوق کی صفائی کرتے ہوئے شاہ صاحب سے غلطی سے گولی چل گی۔۔
یہ غیر سیدوں سے نکاح حرام اور سید پرستی ان سب کے پیچھے روحانی نہیں ں معاشی وجوہات تھیں۔۔ زمین خاندان سے باہر نہ چلی جائے۔۔ اس کے پیچھے سیدزادی سے غیر سید کا نکاح حرام ہے کا فتوی تراشا گیا۔۔ برصغیر میں سادات کو زمین سے بہت نوازا بطور اکرام کے بادشاہوں نے۔۔
شعیب نیازی نے sayyids and social stratification of Muslim in colonial India کے نام سے مقالہ لکھا تھا۔۔ نیازی صاحب نے اخیر کی کردی تھی۔۔ برصغیر کی زات پات کے ڈھانچوں اور سید پرستی پر اس سے بہتر کام میری نظر سے نہیں گزرا۔۔ مقالے میں یوپی کے قصبہ امروہہ جسے قصبہ سادات بھی کہا جاتا ہے اس کا ذکر گیا ہے کہ وہاں سات سو سید خاندانوں کو تغلق بادشاہ فیروز شاہ تغلق کی طرف سے بطور اکرام کے زمین الاٹ کی گی تھی۔۔ یہ زمین ایسی تھی کہ جس سے محصولات نہیں لیئے جاتے تھے۔۔ ایسی زمین کے مالکوں کو معافی دار کہا جاتا تھا۔۔ یہ تو خیر مقالے کے بات ہے۔۔
یہ راویت صرف مسلمانوں کی دور حکمرانی میں نہیں ں رہی۔۔ انگریز نے بھی خوب نوازا گدی نشینوں کو جو بیشتر سید تھے۔۔ sir jhon stretchy نے معافی دار والی پالیسی برقرار رکھی۔۔ اس حوالے سے 1900 کا land Alienation Act بڑا قابل ذکر ہے۔۔ جس میں سادات گدی نشینوں کو زمین خریدنے کا ایک کوٹہ دیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ زمین ان کے پاس رہے اور ان کی پکڑ سماج پر برقرار رہے تاکہ ان کی مدد سے انگریز عوام پر تسلط جما سکے۔۔
انگریز تو چلا گیا مگر زمین۔ آج بھی سادات کے پاس ہے۔۔ اور وہ چاہتے نہیں غیر سید سے اپنی بیٹی کی شادی کروا کے زمین کی حصہ داری خاندان سے باہر جانے دیں۔۔
سب چکر پیٹ کا تھا مگر سید برہمن شاہ صاحب نے مذہب کو کمال مہارت سے استعمال کرکے زمین کی بھوک کا بھی مقدس جواز بنا کر پیش کر دیا۔۔ کہ سید زادی سے نکاح حرام ہے۔۔