Wazir e Kharja Aur Sifarti Adaab
وزیر خارجہ اور سفارتی آداب
بنیادی طور پر میرے دادا جان پیپلزپارٹی کے بہت بڑے سپورٹر رہے ہیں۔ پارٹی محبت کا یہ عالم تھا کہ میں نے بچپن سے لیکر ہوش سنبھالنے تک اپنے گھر کی چھت پر تین رنگوں والا پیپلزپارٹی کا جھنڈا ہی دیکھا۔ اس وقت اس جھنڈے کو دیکھ کر اپنائیت اور اطمنان کا احساس ہوتا تھا۔ الیکشن قریب آتے تو نئے پارٹی پرچم آتے۔
دادا جان سب بچوں کو یہ پرچم تقسیم کرتے اور خصوصی ہدایت کرتے کہ سب بچوں نے یہ پرچم بانس کیساتھ اپنے گھروں کی چھتوں پر لگانا ہے۔ خصوصی تاکید ہوتی کہ یہ جھنڈا کبھی زمین پر نہ لگنے پائے۔ کئی بار ہم یہ پرچم اپنے سر پر باندھ کر خود کو توانا محسوس کرتے تو دادا جان کی آنکھیں چمک اٹھتی تھیں۔
بھٹو صاحب سے بھی دادا جان کو والہانہ محبت تھی۔ لاہور میں چھوٹے دادا جان کی دو تین ملاقاتیں ہوئیں۔ بھٹو صاحب کے بعد شہید محترمہ بے نظیر کے بہت بڑے سپورٹر رہے۔ محترمہ کی شہادت پر دادا جان بہت آبدیدہ ہو گئے اور تادم مرگ بہت افسردہ رہے۔ دادا جان جب تک زندہ رہے پیپلزپارٹی کے ہمدرد رہے البتہ شہید محترمہ بے نظیر کی وفات کے بعد اکثر محترمہ کے زکر پر افسردہ ہو جاتے اور بعدازاں پیپلز پارٹی کی پالیسیز اور قیادت کے فیصلوں سے اختلافات کی بناء پر خاموشی اختیار کر لی۔
پیپلزپارٹی چھوڑنے کے بعد بھی جب کبھی محترمہ بے نظیر شہید کا زکر آتا تو بڑے دادا جان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور کہتے تھے پیپلزپارٹی اقتدار میں آ کر بھی اپنی لیڈر کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کرسکی۔ ہماری پیپلزپارٹی اب ایسے ہاتھوں میں چلی گئی ہے کہ پیپلزپارٹی اب وہ والی پیپلزپارٹی ہی نہیں رہی۔
خیر باقی باتیں پھر کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں اب اصل مدعے کی طرف آتے ہیں۔ گزشتہ روز ایک غیر ملکی فورم پر سوال و جواب کے سیشن میں وزیر خارجہ پاکستان بلاول زرداری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ عمران خان کے دورہ روس کی حمایت کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک اچھا اور متوازن بیان ہے۔ اس بیان کو لے کر کچھ لوگ بلاوجہ تنقید بھی کر رہے ہیں اور کچھ لوگ بہت زیادہ تعریف۔
میں اسے ایک روٹین کا سفارتی بیان ہی سمجھتا ہوں۔ غیر ملکی دورے کسی ملک کی سفارتی پالیسی میں طے کئے جاتے ہیں جو فرد واحد کے بجائے اس ملک کی حکومت اور ریاستی ادارے مل کر بناتے ہیں۔ کسی بھی ملک کا وزیراعظم یا سفارت کار دیگر ممالک میں اپنے ملک کا نمائندہ تصور ہوتا ہے اسکے تمام بیانات، حرکات و سکنات اپنے ملک کی سفارتی پالیسی کی عکاس ہوتی ہیں۔
بلاول زرداری نے بہت نپا تلا اور متوازن جواب دیا ہے۔ نہ زیادہ اور نہ کم۔ موقع محل کی مناسبت سے یہی بیان بنتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دورہ روس کے حوالے سے عمران خان مختلف جگہوں پر اپنے خطاب میں بارہا کہہ چکا ہے کہ یہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ دورہ پر جانے سے قبل پاکستان کی عسکری قیادت کو بھی اعتماد میں لیا گیا اس کے بعد یہ دورہ عمل میں آیا۔ مطلب اس میں عسکری قیادت کی رضامندی شامل تھی۔
عمران خان کے اس بیان کی پاکستانی سفارت خانے نے تصدیق بھی کی۔ بیرون ملک دورے فرد واحد کی رضامندی سے نہیں کئے جاتے بلکہ مختلف اداروں کیساتھ گفت و شنید کے بعد کئے جاتے ہیں۔ عمران خان نے بھی وہی کیا۔ حتیٰ کہ دورہ پر جانے سے پہلے بھی دوبارہ ان اداروں کیساتھ خط و کتابت ہوتی ہے جو باقاعدہ ریکارڈ کا حصہ ہوتی ہے۔ اس دورے کا کریڈٹ اکیلا عمران خان نہیں لے سکتا اور ناں ہی اکیلے عمران خان پر تنقید ہو سکتی ہے کیونکہ یہ دورہ ہماری سفارتی پالیسی کا حصہ تھا۔
لہٰذا بلاول زرداری نے اپنے بیان میں کہیں بھی عمران خان کا دفاع نہیں کیا بلکہ پاکستان کی سفارتی پالیسی کا دفاع کیا ہے۔ البتہ اب اگر سفارتی پالیسی تبدیل کرنا چاہیں تو حکومت ملکی مفاد کے پیش نظر دیگر اداروں کی مشاورت سے اس میں ردوبدل کر سکتی ہے کیونکہ ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سفارتی پالیسی میں تبدیلی بھی روٹین کا معاملہ ہے۔