Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Erhiyan Utha Kar Siasi Phansi

Erhiyan Utha Kar Siasi Phansi

ایڑیاں اٹھا کر سیاسی پھانسی

کئی بار سوچا کہ اب صرف معاشرتی اور سماجی موضوعات پر لکھوں گا۔ سیاسی موضوعات پر نہیں لکھا کروں گا کیونکہ اس سے محبت کے بجائے نفرتیں بڑھتی ہیں اور بہت سے دوست اپنے سے دور ہو جاتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم میں اختلاف رائے سننے کا حوصلہ ہی نہیں ہے۔

عرصہ دو سال قبل استاد محترم ایثار رانا صاحب کے پاس ہم چائے پی رہے تھے تھے تو میں نے اپنی اسی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے فرمایا "ایک کالم نگار کا سیاست میں عدم دلچسپی بالکل اسی طرح ہے جیسے ایک شخص کا کھانے پینے میں عدم دلچسپی کا اظہار ہے۔

ایک مصنف یا کالم نگار کا سیاسی موضوعات اور حالات حاضرہ پر بات کرنے سے انکار دراصل قلم کی سانسیں بند کر دینے کے مترادف ہے۔ آپ اگر سیاسی موضوعات پر نہیں لکھیں گے تو حالات حاضرہ سے بےخبر ہو جائیں گے اس طرح بہت جلد آپکے قلم کو زنگ لگ جائے گا اور آپکی تحاریر میں یکسانیت آ جائے گی۔

ملکی حالات دن بدن عجیب و غریب صورتحال اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی کے بیانئے کو بنیاد بنا کر گزشتہ حکومت کو فارغ کرکے بھان متی کے کنبے کی صورت میں ایک طوق میاں شہباز شریف کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے۔

مجھے کبھی کبھار بہت حیرت ہوتی ہے جب ہوا میں معلق موجودہ حکومت کو دیکھتا ہوں گویا کاغذ کی ناؤ کو برستی بارش میں پانی کے اندر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ جیسے اب گری کہ گری مگر پھر بھی موہوم سا یقین ہے کہ یہ حکومت کھینچ تان کر چند ماہ تو نکال ہی جائیں گے البتہ کاغذ کی اس نئیا کا پار لگنا تقریباً ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

مہنگائی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ آج آپ یورپی ممالک کے معاشی عشاریے اٹھا کر دیکھ لیجئے کہ کورونا سے انکی معیشت کتنی متاثر ہوئی ہے اور وہاں مہنگائی کس قدر بڑھی ہے۔ پاکستان کی حالت ان کی نسبت پھر بھی بہتر ہے۔ زیادہ دور مت جائیں یہ گلف ممالک کے اعداد و شمار ہی دیکھ لیجئے۔ اپنے پیاروں سے پوچھیں جو سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔

وہ آپ کو عرب ممالک میں مہنگائی کے بارے بتائیں گے کہ گزشتہ دو سال میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو سابق وزیر اعظم عمران خان بھی اس بحران کا سامنا کرتے ہوئے حالات کو اچھے طریقے سے لے کر چل رہے تھے۔ انھوں نے بھی ملکی وسائل میں رہتے ہوئے بہت حد تک عوام کو ریلیف دے رکھا تھا مگر پھر بھی ظاہر ہے کہ مہنگائی گلوبل مسئلہ تھی۔ ہم لوگ پھر بھی اس پر تنقید کرتے رہے اور کسی حکومت کو درست ٹریک پر رکھنے کیلئے اس پر تنقید ہونا لازم ہے۔

شہباز شریف بھی اپنے طور پر مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات کریں گے مگر مہنگائی روز بروز بڑھتی جائے گی کیونکہ مہنگائی کے آگے بند باندھنا کسی کے بس کی بات نہیں لہذا ایک شہباز شریف بیچارہ کیا کر پائے گا۔ یوں سمجھیں کہ آپ کے گھر کے چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے مگر آپ یہ کہیں کہ وہ آگ آپ کے گھر کو اپنی لپیٹ میں نہ لے یا اسکی تپش آپ تک نہ پہنچے تو اس سے بڑی بیوقوفی کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔

میں شہباز شریف کی ایڈمنسٹریشن کا ہمیشہ سے معترف رہا ہوں مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ اس مہنگائی کو کنٹرول نہیں کر پائے گا جس کی وجہ میں اوپر بتا چکا ہوں۔ مجھے شہباز شریف کی بےبسی پر ترس آتا ہے کہ اسے بھیجنے والوں نے اسکے پورے جسم کو مہنگائی اور معاشی بد حالی جیسے بڑے مسائل کے خاردار رسہ سے لپیٹ کر اسے آگ کے انگاروں پر چل کر سیاسی مقتل گاہ کی جانب جانے کیلئے چھوڑ دیا ہے اور سیاسی مقتل گاہ کے راستے کے دونوں جانب کھڑے اس کے حواری تالیاں بجا رہے ہیں۔ ایسے میں بیچارے کا کیا حال ہو گا یہ تو واقفان حال ہی بہتر جانتے ہیں۔

دراصل میاں شہباز شریف نے اپنی سیاسی پھانسی کیلئے ایڑیاں اٹھا کر ازخود اپنے گلے میں یہ رسی ڈالی ہے کوئی اس میں کیا کر سکتا ہے۔

Check Also

Be Maqsad Ehtejaj

By Saira Kanwal