Thursday, 10 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Alisha Riaz
  4. Rohani Safar Ke Gumnam Wali (1)

Rohani Safar Ke Gumnam Wali (1)

روحانی سفر کے گمنام ولی (1)

حمد ہے مالکِ کائنات کی جس نے ہمیں مکر و فریب اور دھوکہ دہی سے لبریز عارضی دنیا میں بھیج تو دیا لیکن ابلیس لعین کی مانگی گئی مہلت بھی قبول فرماتے ہوئے سورۃ الحجر کی آیات میں ارشاد فرمایا!

ابلیس نے کہا پروردگار مجھے اس دن تک مہلت دے جب لوگ (مرنے کے بعد) زندہ کیے جائیں گے تو رب تعالیٰ نے فرمایا تجھے مہلت دی جاتی ہے وقت مقرر (یعنی قیامت) کے دن تک۔

چنانچہ مالک کائنات نے اپنی شانِ عظیم کے مطابق ابلیس کی مطلوبہ مہلت پر جب حکم صادر فرمایا تو شیطان مردود نے کہا پروردگار جیسا کہ آپ نے مجھے راستے سے الگ فرمایا تو میں بھی زمین پر لوگوں میں گناہوں کو اس طرح آراستہ کر دکھاؤں گا کہ سب کو بہکا دوں گا البتہ آپ کے مخلص بندوں پر یقینا قابو پانا مشکل ہوگا۔

رب تعالیٰ نے فرمایا میری بارگاہِ عظیم میں پہنچنے کا تو یہی سیدھا راستہ ہے کہ میرے مخلص بھٹکتے نہیں اور میرے فرماں برداروں پر تجھے ذرہ برابر بھی قدرت حاصل نہیں کہ تو ان کو گناہوں کی دلدل میں پھنسا سکے البتہ جو تیرے پیچھے چل پڑے ان کا ٹھکانہ جہنم کی دہکتی آگ ہی ہے۔

ابھی حضرتِ انساں نے از جانبِ زمیں قدم بڑھانے کا سوچا بھی نہ تھا کہ مردود نہ صرف طبلِ جنگ بجا چکا بلکہ چہار سو گھیراؤ کو عملی جامہ بھی پہنا چکا تھا تو مالکِ کائنات نے اپنے وعدۂ عظیم کے مطابق ابن آدم کی رہنمائی کے لیے انبیاء کرام کی بعثت کے ساتھ آسمانی کتابوں اور صحائف کا نزول بھی بتدریج فرما دیا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انسان نے انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کو بھلا ڈالابلکہ ذاتی مفاد اور دنیاوی لالچ کی لعنت کے بدبودار سمندر میں ڈوب کر صرف چند سکوں کے عوض آسمانی کتب و صحائف کو بھی بدل ڈالا۔

بالآخر ربِ کائنات نے رحمت اللعالمین، سردارِ انبیاء، محبوبِ خدا اور اپنے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کو نہ صرف انسانی ہدایت کے لیے نازل فرمایا بلکہ اک ایسی آسمانی کتاب بھی عنائت فرمائی جس کا حرف حرف سچ اور ہدایت پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ شک کی گنجائش کا تو سوال بھی پیدا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہی تو ہدایت کا سرچشمہ ہے کہ تا قیامت اس کی حفاظت کا ذمہ دار بھی خود خدائے برحق ہی ہے۔

بلاشک و شبہ وہی تو خالقِ حقیقی ہے جو ہر ذرے میں موجود اور ہر دل کو اپنے نور سے بھر دیتا ہے شانِ ربی کے سامنے ہم سب حقیر و عاجز ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ اللہ ہی کی رحمت تلے ہمارا وجود پروان چڑھ سکتا ہے۔

میرا لکھا ہوا اک ایک لفظ، حرف یا جملہ احساسات سے خالی نہیں اور تدبر کی دنیا میں غور و فکرکے بعد میرے لفظ ہی میرا تعارف ہیں چونکہ میں روحانی مسافر ہوں جو کائنات کی بے کراں وسعتوں میں اپنے وجود کے معنی تلاش کرنے کی غرض سے محو سفر ہوں۔ میرا دل روحانیت، عشق الٰہی اور حقیقی روشنی کی طلب میں دھڑک رہا ہے اور میری روح قربِ الٰہی کی تلاش میں غوطہ ذن ہے میرا یہی ماننا ہے کہ بیشک جس دن ہم میں سے کسی ایک نے بھی اپنے وجود کے معنی تلاش کر لیے اسی دن حقیقی کامیابی بھی ان کا مقدر بن جائے گی۔

جہانِ فانی میں بسر کردہ زندگی کے ہر ہر لمحے میں میں نے مالک کو محسوس کرنے کی ہر ہر ممکن کوشش کی بیشک ہمارا رب ہماری اندرونی گہرائیوں میں پنہاں ہے جیسا کہ سورۃ ق میں ارشادِ ربانی ہے۔

ہم نے انسان کو پیدا فرمایا اور اس کے دل میں جو بھی خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم بہت اچھی طرح واقف ہیں اور ہم اس کی رگِ جان سے بھی بہت زیادہ اس کے قریب ہیں۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Tanqeed Na Karen, Daad Dein

By Abid Mehmood Azaam