1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Hassan
  4. Aurat To Shehzadi Hai (2)

Aurat To Shehzadi Hai (2)

عورت تو شہزادی ہے(2 )

اسلام نے عورت کو چار بہترین روپ میں عصمت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ عورت ماں کے روپ میں شفقت کی دیوی، بہن کے روپ میں پیکر ایثار، بیوی کے روپ میں پیار کا سمندر اور بیٹی کے روپ میں باپ کی بخشش کا سامان اور عزت و تکریم کا نشان ہے۔ عورت کے جذبات کی بات ہو تو سمندر کی طرح وسیع اور گہری ہے۔ جذبات سے نہ مرد خالی ہیں نہ عورتیں۔ مگر تجزیہ اور غور و فکر کے نتیجہ میں جن جذبات کی نشاندہی ہو سکی ان میں اہم ترین اور قوی ترین جذبات دو ہیں۔ ایک ہے جذبۂ محبّت اور دوسرا جذبۂ ستائش پسندی۔

آیئے، جذبۂ محبت پر نظر کرتے ہیں۔

عورت کے اندر محبت کا جذبہ انتہاء تک پہنچا ہؤا ہوتا ہے جس میں اسے انجام تک کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اگر اس کا بچّہ کسی آگ لگے مکان میں ہو تو ایک ماں کو اُس آگ میں کُودنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہی جذبۂ محبت اُس کے اندر مزید ایثار و قربانی کے جذبات پیدا کرتا ہے جو اُسے صبر و برداشت کی انتہاء کو پہنچا دیتے ہیں۔ مثلاً ایک سرد رات میں کسی ماں کا اپنے شیر خوار بچےکو سوکھے میں سُلا کر خود گیلے میں رات کاٹ دینا۔

یہ قربانی کا جذبہ، جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، اِسی جذبۂ محبت کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ عورت کے جذبۂ محبت کی بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کمزور کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اس حمایت میں اُسے اِس بات کی بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ کمزور ظالم ہے یا مظلوم۔ غور کیجیئے گا، یہاں اس کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے۔ وہ معاف کرتی ہے اور بس معاف کرتی ہے، انصاف نہیں کرتی۔ یہ جذبہ اسے بہترین ماں ہونے کے اعلٰی مقام تک پہنچا دیتا ہے۔

اسی کے برعکس، یعنی محبت کی جو ہم نے بات کی اس کے برعکس عداوت میں بھی عورت انتہاء کو پہنچی ہوئی ہوتی ہے، یہاں بھی اسے انجام کی پرواہ نہیں ہوتی۔ ضروری ہے کہ ہمارا سلوک اُس کے ساتھ اس طرح کا ہو کہ اس کا جذبۂ محبت بیدار رہے اورجذبۂ عداوت تاحیات سوتا ہی رہے۔

میں یہاں پر خبردار کرنے کی زبان میں کہتا ہوں کہ:

خبردار! اسے عقل سے فیصلے کرنے والی بنانے کی کوشش نہ کرنا۔

خبردار! اسے انصاف کرنے والی بنانے کی کوشش نہ کرنا۔ اور

خبردار! اس کے جذبۂ عداوت کو بیدار نہ کرنا۔

ہمیں وہ جذباتی ہی چاہیئے، ہمیں وہ معاف کرنے والی ہی چاہیئے اور ہمیں وہ محبت کرنے والی ہی چاہیئے۔ کیونکہ اسی حالت میں وہ اپنی فطرت پر ہے اور اسی فطرت کے ساتھ وہ ہمارے لئے ایک ایسی نعمت ہے جو خزاں میں بھی بَہار کی خوشبو اور فرحت لئے ہوئے ہے۔

اگر عورت کے ہاتھ میں مرد کے سکون اور ترقی کی ڈور ہے تو مرد کی پستی کی وجہ بھی یہی ہے۔ موجودہ دور میں مردوں کی بڑی تعداد پردے کے خلاف ہے کہیں بھائی بہن کو، باپ بیٹی کو اور کہیں خاوند بیوی کو سرے عام بے پردہ لیے گھومتے ہیں، بے پردہ عورت نہ صرف بےبرکتی اور افلاس کو گھر میں دعوت دیتی ہے بلکے مرد کو بھی بےغیرت ظاہر کرتی ہے اور جب مرد بےغیرت ہو تو ایک فرد بےغیرت ہوتا ہے جبکہ عورت بےغیرت ہو تو پورا معاشرہ تباہی کا شکار بنتا ہے۔

عورت نے جنم دیا مردوں کو

مردوں نے اسے بازار دیا

جب جی چاہا مسئلہ کچلا

جب جی چاہا دھتکار دیا

اِس ضمن میں ایک اور بات یہ کہ کہتے ہیں، عورت ضد کرتی ہے۔ ٹھیک کہتے ہیں کہ ضد کرتی ہے۔ لیکن ضد کس سے کی جاتی ہے؟ ضد کرنے کے لئے کوئی بڑا چاہیئے، ضد کرنے کے لئے کوئی اپنا چاہیئے۔ وہ جنہیں بڑا اور اپنا سمجھتی ہے ان ہی سے ضد کرتی ہے۔ لہٰذا اپنے بڑے پن اور اس کی اپنائیت کا لحاظ کیجئے۔ اس کی توقّعات کو جائز حد تک ضرور پورا کیجئے۔ ناجائز میں بھی اسے محبت سے سمجھایئے، جھڑکیئے نہیں۔ اختیار و اقتدار کا بےجا فائدہ نہ اٹھایئے۔ یاد رکھیئے، کلّی اختیار کسی اور کے پاس ہے۔

انتہائی افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ جس قوم کی عورت کو دیکھ کر کافر ادب سے کھڑے ہو جایا کرتے تھے آج اسی قوم کی بیٹیاں سر پہ ڈوپٹہ اوڑھنا اور پردہ کرنا جہالت سمجھتی ہیں اور اپنے لیے نمائش پسند کرتی ہیں۔ شاید انہیں یہ علم ہی نہیں کہ خود کوڈھانپنے کا حکم اللہ کی طرف سے ہے مگر نوجوان نسل اتنی منہ زور ہو چکی ہے کہ مائیں سمجھانے سے پہلے سو بار خود سوچتی ہیں۔ فیشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والی لڑکیاں اپنے دائمی نفع کو اور بخشش چھوڑ کر عارضی آشائشوں میں مگن عذاب جہنم کو خوب دعوت دے رہی ہیں۔

لیکن میڈیا اور ترقی نے عورت کو اس کے مقام سے کہیں دور دھکیل دیا ہے۔ شرم و حیا کی پیکر آج نہایت بلیغ انداز میں انڈین فلموں پہ تبصرے کرنا اپنا اولین فرض سمجھتی ہیں۔ مغرب ممالک نے ہماری دکھتی رگوں پہ ہاتھ رکھ کے فیشن کی مار مارا ہے۔ انہی ممالک کی دیکھا دیکھی مسلم معاشرے بھی جدت پسند بنتے جا رہے ہیں اور کچھ تعلیم یافتہ لوگوں نے پردے کو ترقی کی راہ میں حائل قرار دیتے ہوئے عورت کو جو ترقی دی ہے اس کا صحیح اور جائز حق نظر نہیں آتا۔

کہاں سے لائی جائیں وہ مائیں جنہوں نے قرآن سیکھا اور اس کی تعلیمات کو حرف آخر بنا کر اپنی زندگیوں کو روشن بنایا جن کے بطن سے امام ابو حنیفہ، اور شیخ عبدالقادر جیسے بیٹے پیدا ہوئے۔ بدنظری زنا کی پہلی سیڑھی ہے اگر انسان اپنی نگاہ نیچی رکھے تو اس فتنہ سے بچا جا سکتا ہے، جب نفس پاک ہو تو چہرے پر پاکیزگی کا نمایاں نکھار نظر آتا ہے۔ اللہ تمام ماؤں بہنوں کی عزتوں کی حفاظت فرمائے، آمین۔

About Ali Hassan

Ali Hassan is from Sargodha. He is doing BS International Relations and political science from university of lahore sargodha campus. He is interested in writing on different political and social issues.

Check Also

Zindagi Mein Maqsadiyat

By Syed Mehdi Bukhari