Saturday, 06 July 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aisha Fawad
  4. Zindagi, Aik Haseen Imtehan

Zindagi, Aik Haseen Imtehan

زندگی، ایک حسین امتحاں

زندگی کبھی کبھی واقعی امتحان لیتی ہے۔ کبھی کوئی صیح کام بھی ہوتے ہوتے ہاتھ سے نکل سا جاتا ہے اور اسکے ساتھ ہی ہم امید کا دامن ہاتھ سے سرکتا دیکھ کر نا امید ہونے لگتے ہیں۔ یہ جاننے کے باوجود بھی کہ مایوسی گناہ ہے ہم پھر بھی اس گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ ہمارے بوجھل دل ناتواں میں بے صبری کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں اور ہم بے اختیاری کے عالم میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آخر ہم خود پر جبر کیوں نہیں کر لیتے اور زندگی کی اونچ نیچ سے سمجھوتہ کیوں نہیں کر پا تے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اس سب کی وجوہات کیا ہیں اور انکا تدارک کیوں کر مُمکن ہے تو پہلے تو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ کونسے کام ہیں جو ہم جلد از جلد سر انجام دینا چاہتے ہیں؟

مثال کے طور پر آپ اپنے ہی گھر سے شروع کر لیجئے۔ آپ اگر کرائے کے گھر میں رہتے ہیں تو آپکو جلد از جلد اپنی چھت درکار ہے اور ہونی بھی چا ہیے کیونکہ اس ہوشربا مہنگائی میں گھروں کے کرا ئے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ آپ ایڑ ی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہ کسی طرح آپ اپنے گھر کے مالک بن جائیں مگر باوجود محنت کے، بچت کے بات کچھ بنتی دیکھائی نہیں دیتی۔ جو پلاٹ آپ نے کچھ عر صہ پہلے دیکھا تھا وہ کچھ اور مہنگا ہو چکا ہے اور مزید یہ کہ اس کے علاوہ باقی تعمیراتی سامان بھی پہنچ سے باہر ہے۔ ایسے میں سفید پوش انسان کر بھی کیا سکتا ہے سوا ئے جھنجھلاہٹ کے اور چڑ چڑے پن کے۔

ہما ری زندگی ہر دن ایک نیا موڑ لیتی ہے، ایک نئی جہت کو چل پڑتی ہے۔۔ ہر روز ایک نیا خرچہ سامنے آ جاتا ہے۔ گرمی ہو تو بجلی کے بِل آسمان سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ سوچتے ہیں سردی میں سکون آ جائے گا مگر کہاں جی؟ سردی آتی ہے تو ہم کپکپانےلگتے ہیں۔ ہاتھ پاؤں جیسے برف ہوئے جاتے ہیں با لکل ہمارے احساسات کی طرح اور ہم اپنے آپ کو حدت پہنچانے کے لیے ہیٹر کا استعمال کرتے ہیں ویسے تو گیس نہیں آتی مگر آ جائے تو ہم گیزر اور ہیٹر دونوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اورکیونکہ انسان جلد باز ہے تو ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ جلدی کمرہ بھی گرم ہو جا ئے اور جلدی ہی سب ٹوٹیوں میں گرم پانی ایسے دوڑ نے لگے جیسے ہماری رگوں میں خون دوڑتا ہے۔۔ اورساتھ ہی ساتھ اس گرم کمرے میں ہیٹر کی حدّت کو محسوس کرتے ہوئے ایک پیالی

چا ئے تو ہونی ہی چا ہئے۔ شومئی قسمت جب ہم ان سب امیرانہ موجوں کے مزے لوٹنے میں کامیاب ہو بھی جائيں تو گیس کا بل ہمیں منہ چڑ انے کو آن پہنچتا ہے تو بس پوچھیں مت کہ دل کیسے خون کے آنسو روتا ہے۔ اس وقت بھی آپ چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔ مرتے کیا نہ کرتے کے موافق کچھ کر کرا کے اسکی اقساط کراتے ہیں یا یک مشت ادا کرتے ہیں اور دو گھڑی سستاتے ہیں تو ساتھ ہی پتا لگتا ہے کہ بچوں کی اسکول فیس کا وقت ہے اور ساتھ ہی گھر کی کوئی چیز بھی خراب ہو جاتی ہے۔ یوں یکے بعد دیگرے کام نکلتے چلے آتے ہیں۔ وہ کام جو ہما رے وہم و گمان میں نہ تھے۔

کبھی کبھی تو انسان بالکل بے بس ہو کر اپنے رب سے فریاد کرنا شرو ع کر دیتا ہے کہ یا رب جاوں توجاوں کہاں۔ دل گویا کوئی فریاد بر نہیں آتی کہ مصدا ق اپنے آپ کو بہلا نے کو موبائل اٹھاتا ہے اور ایسے میں ایک دم سے فيسبک کے نئے پیغام کی بیپ سنائی دیتی ہے اور اسے کھولتے ہی دماغ بھک سے اڑ سا جاتا ہے۔ ریل گاڑی کی وسل کی مانند کانوں میں سیٹیاں سی بجتی ہیں اور دماغ سائیں سا ئیں کرنے لگتا ہے۔۔ کیا ديكهتے ہیں کہ کچھ دوستوں کی ناران، سکردو اور ہنزہ کی تصاویر میری دیوار پر لگی ہوتی ہیں۔ شکر ہے کہ گھر کی دیوار پر نہیں لگی ہوتیں بلکہ فیس بک کی دیوار پر ہی ہوتی ہیں اور کچھ احباب تو ملک میں ٹکے ہی نہیں بلکہ وہ تو ملک سے باہر پھنچ گئے ہیں اب تو جو تھوڑا قرار تھا یا سکون تھا سمجھيں کہ وہ بھی چھن گیا۔ اپنے تخیل کی پرواز کو جب ان کے مالی حالات تک لے جاؤں تو ذھن میں آتا ہے کہ حالات تو کم و بیش انکے بھی ایسے ہی تھے تو کونسے خزانے کی کنجی انھيں مل گئی ہے شاید کو ئی بیسی نکلی ہو یا آبائی جا ئیداد میں کوئی نیا حصّہ نہ دریافت ہوگیا ہو، اب تومجھے اس کھدبد میں ہی رہنا ہے جب تک انکی واپسی نہ ہو جا ئے۔ اور انکا یہ خزانے کا راز مجھ پر فاش نہ ہو جائے کہ وہ آخر یہ سب کیسے کرکے آ گیے ہیں اور مجھے یہ گیڈر سنگھی کیوں نہیں پتا لگ سکی۔ وائے افسوس!

کو ئی تو بتلا دے۔ دل تو بچہ ہے جی"۔۔ آج سمجھ میں آیا کسی مجھ جیسے سر پھرے نے ہی بولا ہوگا "۔ پھرکافی سوچ بچار کے بعد ذہن میں ایک جھماکہ سا ہوتا ہے کہ بچپن میں ماں کہتی تھی، بیٹا! اپنے سے نیچے والوں پر نظر دوڑانی چاہیے اور اپنے رب کا شکر کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں بہت سوں سے بہتر بنایا ہے، ماں کی تب کہی گئی بات اب جا کے کیوں سمجھ آئی۔ شاید ہم تب اس بات کو ہنسی میں اڑا گئے ہوں گے کیونکہ اپنی ماں کے تجربے کو کبھی ہم نے اپنی مستی میں گم ہو کر پرکھا ہی نہیں تھا تب شا ید زندگی اتنے امتحان بھی نہ لیتی تھی اور یا ہمارے حصّے کے سب امتحان ہمارے ماں باپ ہنسی ہنسی میں یا چٹکیوں میں اڑا جاتے تھے۔۔ اور ہم۔ تک کچھ آ نے نہ دیتے تھے۔ ہاں ! مگر اب ہم اس حساس دل کا کیا کریں جو سنبھالے سنبھلتا ہی نہیں۔ کسی ضدی بچے کی مانند مچلتا ہی رہتا ہے تو پھر خیال آتا ہے کہ اسے مچلنے دینا اور مانگنے دینا چا ہیے اور مانگنا تو صرف اپنے رب سے چاہئیے جو نہ تو بڑ ی بڑ ی چیز يں ما نگنے پر اور نہ نئی نئی فرمایشوں پر جھنجھلا ئے گا اور نہ ہی غصّہ کرے گا بلکہ ہم پر لطف و کرم کی بارش کردے گا اور جھولیاں بھر کے نوازے گا بس اس پر توکل کرنا ہے، اسی سے مانگنا ہے اور اسی کو اپنے دکھ بتانے ہیں۔ یہ جو ہم دنیا کے پیچھے ہلکان ہوئے جاتے ہیں، اس دنیا نے ہمیں کچھ نہیں دینا، پھر کیوں راضی کریں اسے، کیوں اسکی فکر میں خود کو ہلکان کریں۔ کیوں ناں اپنے آپ کو پہچان کر ایک ایسے سفر کی طرف گامزن ہوں جو تشکر کا صبر کا، سکون کا سفر ہو، اپنے رب کی رضا میں راضی رہنے کا سفر ہو، لوگوں کی خوشی میں خوش رہنے کا سفر ہو تو اس سے ہماری زندگی کے امتحان کم تو نہ ہوں گے مگر آسان تو ہو ہی جائيں گے اور زندگی کے معاملات بوجھ کی طرح نہیں بلكہ اللہ کی طرف سے دیئےجانے والے فرض کی طر ح لگیں گے۔ اور ہم شاکرین اور صابرین میں سے ہو جائیں گے اور بے ا ختیار بول اٹھیں گے۔

زندگی ہے کتنی حسین

Check Also

Aadam Khor Ashraf Ul Makhlooqat

By Zubair Hafeez