Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Aadam Khor Ashraf Ul Makhlooqat

Aadam Khor Ashraf Ul Makhlooqat

آدم خور اشرف المخلوقات

یہ اٹھارہ سو چالیس کا امریکہ ہے۔ کیپٹن جیکب ڈونر کی قیادت میں آبادکاروں کا ایک جتھہ کیلیفورنیا کی طرف زمین اور سونا ڈھونڈنے کے لیئے جارہا ہے، سری نواڈا میں پہنچتے ہی اچانک موسم خراب ہوجاتا ہے شدید برف باری میں آبادکاروں کا یہ گروہ پھنس جاتا ہے۔ ان کی خوراک ختم جاتی ہے اور انھیں اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں، آہستہ آہستہ لوگ مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بھوک کے ستائے یہ آباد کار ایک عجیب کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے ہی مرے ہوئے ساتھیوں کی لاشیں کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ کل ستاسی لوگ کیلیفورنیا سے نکلے تھے مگر بچتے صرف بتالیس ہیں۔ امریکی اس واقعے کو "ڈونر پارٹی "کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

انسانوں کا انسانوں کے کھانے کے اس عمل کو human cannibalism کہا جاتا ہے۔ ابن آدم کی آدم خوری کی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قدیم مصر میں یہ عمل کیا جاتا تھا۔ کیربییئن جزائر میں بھی انسان آدم خور رہے ہیں۔ ایمازون کے جنگلات میں بھی ایسے قبائل پائے جاتے تھے۔ گیانہ اور کانگو میں اب تک ایسے قبائل موجود ہیں جو انسانوں کا گوشت کھاتے ہیں۔ cannibalism کی عموماََوجہ خوراک کی عدم دستیابی ہی بیان کی جاتی ہے مگر کچھ کیسز ایسے بھی آئے ہیں جب کچھ سر پھرے قاتل انسانوں کو مار کر ان کا گوشت کھاتے تھے۔ امریکہ کے سیریل کلر البرٹ فش نے تین لوگوں کو مار ان کا گوشت کھایا تھا۔ اسی طرح سن دو ہزار دو میں جرمنی کا کمپیوٹر ٹیکنیشن گرفتار ہوا جس نے ایک انسان کو مار کر اس کے نازک اعضا کو کھایا تھا۔ اس کا نام تھا Armin meiws..

مگر ہمارے قریبی دور میں cannibalism کا سب سے ہولناک واقعہ انیس سو بہتر میں پیش آیا۔ جب ارجنٹائن سے ایک فلائٹ بتالیس سٹوڈنٹ کو لے کر سنٹیا گو، چلی کی طرف اڑی۔ جہاز میں کچھ خرابی پیدا ہوگئی اور وہ جہاز ادیس کے پہاڑی سلسلے میں گر گیا۔ جہاز کا پائلٹ تو مارا گیا مگر سٹوڈنٹ محفوظ رہے۔ مگر وہ برف میں پھنس گئے۔ اس ٹھٹھرتی سردی میں ان کے پاس نہ گرم کپڑے تھے نہ کھانے کو کچھ۔ بہتر دن وہ اس برف میں پھنسے رہے جب ریسکیو ٹیم وہاں پہنچی تو صرف بتیس لوگ رہ گئے تھے اور ان کے آس پاس انسانوں کے کھائے ہوئے ڈھانچے بپڑگ تھے۔

ان لوگوں نے خود کو زندہ رکھنے کے لئے اپنے ہی دوستوں اور ایک بھائی نے اپنی ہی بہن کی لاش کھائی تھی۔ یہ دنیا کو چونکا دینے والا وقعہ تھا۔ اس واقعے پر کئی مویز، ڈاکومینڑیز اور ناول لکھے جا چکے ہیں۔ پچھلے ہی دنوں ایک نئی مووی سوسائٹی آف سنو بھی اس پر آئی ہے۔

انسان بہت ہی پیچیدہ سماجی جانور ہے۔ یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے۔ انسان کو مہذب اس کی آسائشوں نے بنایا ہے۔ جس دن اس کےے آرائش اور آسائش کے پردے اس کے سامنے سے ہٹ جاتے ہیں یہ پھر وحشی بن جاتا ہے۔ بھوک ہی وحشت اور انسانیت کے بیچ کا فرق ہوتا ہے۔

آپ کتنے ہی مہذب کیوں نہ ہوں۔ کتنے ہی بڑے دانشور، عالم، مفکر، مبلغ یا فلاسفر کیوں نہ ہوں۔ اگر آپ کو پانچ دن تک کھانا پینا کچھ نہ ملے، سگر آپ بھی ڈونر پارٹی کی طرح سری نواڈا کی برف میں پھنس جائیں۔ آپ کی ساری مفکری، فلاسفری، دانشوری اور اخلاقیات بھاپ بن کر اڑ جائیں گئی۔ پیچھے صرف بھوک رہ جائے گئی۔ پھر فلاسفر اور دانشور صاحب کے سامنے باپ کی لاش پڑی کوئی تو وہ اسے ہڑپ کر جائے گا۔

مجھے حیرانی ہوتی ہے۔ جب کوئی کہتا ہے انسان کی فطرت بڑی سلیم ہے۔ وہ فلاں کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، وہ اشرف المخلوقات ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں کہتا ہوں اشرف المخلوقات انسان وہی ہے جس کا پیٹ بھرا ہو خالی پیٹ انسان وہ کچھ کر گزرتا ہے جو شرالدواب بھی نہیں سوچ سکتے۔ انسان کی فطرت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ اسے جو ماحول ملتا ہے وہ وہ بن جاتا ہے۔

یقین نہ آئے تو تاریخ اٹھا کر دیکھیں انسانوں کی حیوانیت کی وہ مثالیں ملین گئی آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہ انسان ہی تھے۔ پہلی صلیبی جنگ میں ہی عیسائی فوجیوں نے اپنے دشمنوں کی جگر اور دل نکال کر کھا لیئے تھے۔ وہ جاپانی فوجی بھی انسان ہی تھے جنھوں نے اپنے مخالف امریکی فوجیوں کو مار کر کھایا تھا۔

انسان کی فطرت آسمان سے نہیں اترتی اس پر انسانیت نازل نہیں کی جاتی۔ انسان کو جو حالات ملتے ہیں انہی کے مطابق وہ ڈھل جاتا ہے۔ اچھا ماحول ملے تو وہ ولی بھی بن جاتا ہے وہی انسان ماحول سے مجبور ہوکر جانوروں سے بھی بدتر بن جاتا ہے۔ اتنا بدتر کہ اشرف المخلوقات کے القابات بھی اس کا بال تک نہیں اکھاڑ سکتے۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra