Saturday, 05 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Mutabadil Zaraye

Mutabadil Zaraye

متبادل ذرائع

روزی کے حوالے سے مشہور ہے کہ ایک در بند ہو تو قدرت کی طرف سے سو اور در کھل جاتے ہیں۔ بس انسان کو غوروفکر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کل چھوٹا کسان بہت پریشان ہے۔ پہلے مونجی اور سرسوں کی فصل نے دھوکہ دیا۔ کماد کی فصل کا سارا دارومدار مل مافیا پر ہوتا۔ " جسے پیا چاہے وہی سہاگن ہے" والا معاملہ۔

کسان کو جو تھوڑی بہت آس گندم کی فصل سے آمدن آنے کی توقع تھی۔ صوبائی حکومت کے ایک غیر دانشمندانہ اور غیر مقبول فیصلے کی نظر ہوگئی۔ اس کا خمیازہ یہ حکومت اگلے الیکشن میں بھگت لے گی۔ اگلے سال خوراک کا بحران بھی جنم لے سکتا ہے۔

میری ہمدردی چھوٹے کسان کے ساتھ ہے۔ کسان ایک ایسی واحد مخلوق ہے جس کا کوئی بھی پرسان حال نہیں اس کے نمائندہ ہونے کے دعوے دار خود ساختہ چمپئین ہیں۔ ان کی جڑیں کسان کے ساتھ مربوط نہیں ہیں۔ جو حکومتی ادارے زراعت سے منسلک ہیں۔ ان کے بڑوں کی سوچ اور پلاننگ آن گراؤنڈ نظر نہیں آتی۔

کیا کسان کے پاس مونجی، کپاس، کماد، گندم کے علاوہ کوئی چوائس نہیں؟ اگر ہے تو اس پر کام کیوں نہیں کیا جاتا؟ ہم اپنے ملک کا قیمتی زرمبادلہ چائے کی خریداری پر خرچ کرتے ہیں۔ کیا زرعی ملک ہونے کے ناتے ہم چائے کاشت نہیں کر سکتے؟ کون سے عوامل اس میں رکاوٹ ہیں؟ دالیں ہمیں باہر سے منگوانی پڑتی ہیں۔ کیا ہم اپنے کسانوں کو اس طرف راغب نہیں کر سکتے ہیں؟ کوکنگ آئل کے لئے جو خام مال چاہئے کیا ہم وہ ادھر تیار نہیں کر سکتے ہیں؟

ہمارا ہمسایہ دشمن ملک صندل کے درخت ایک ایکڑ جو کہ تقریباََ سات سال میں تیار ہو جاتا ہے۔ بارہ کروڑ سے زائد میں فروخت کرتا ہے۔ صندل کی لکڑی بہت مہنگی فروخت ہوتی ہے۔ صندل شربت، اور مختلف خوشبوئیں تیار کی جاتی ہیں۔ ہمارا اور ہمسایہ ملک کا موسم اور زمین ایک جیسی ہے بلکہ ہماری زمین زیادہ زرخیز ہے۔ ہم اپنے کسان کو اس طرف راغب کیوں نہیں کرتے ہیں؟

ادویات میں استعمال ہونے والی بہت سی جڑی بوٹیاں جو کہ مارکیٹ میں بہت قیمت رکھتی ہیں۔ ان کو کاشت کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے پاس ہر طرح کا موسم۔ ہر طرح کی زمین اور پانی کا ایک سسٹم موجود ہے۔ ہم مختلف علاقوں کو زونز میں تقسیم کرکے کسان کو ٹریننگ دے کر اپنے مطلوبہ نتائج لے سکتے ہیں۔

زعفران جو کہ مقبوضہ کشمیر میں کاشت کی جاتی ہے۔ جس کی قیمت تولوں میں شمار ہوتی ہے۔ ہم اپنے حصے کے کشمیر میں اس کا تجربہ کیوں نہیں کر لیتے؟

ہمارے پاس دنیا کو بیچنے کے لئے پہلے ہی بہت محدود پروڈکٹس ہیں۔ ہمیں نئی پروڈکٹس پر کام کرنا ہوگا۔ جب تک ہم دنیا کو اپنی چیزیں سیل نہیں کریں گے ہم کشکول سے نجات نہیں لے سکتے۔

کسان کا ایک مسئلہ اس کا بیرونی منڈی سے رابطہ کا فقدان، کہ کیسے اپنی پروڈکٹ کو ایکسپورٹ کرنا ہے۔ بینکنگ کے جھنجٹ، ایف بی آر کی تلوار سرخ فیتہ سب عوامل حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں۔

گھر میں اگر چھوٹے بچے پر خوف دبدبہ مسلط کیا جائے تو اس کی نشوونما پر فرق پڑتا ہے۔ اسی طرح جب تک یہ خوف و ہراس کی فضا بنی رہے گی۔ زراعت یا معیشت پنپ نہیں پائے گی۔ بہت ضروری ہے کہ زراعت کا ایک تھنک ٹینک بنایا جائے وہ مختلف زون بنائے ہر زون کے حساب سے مختلف اجناس، پودے، جڑی بوٹیوں کے اگانے اور ان کو دوسرے ممالک تک سیل کرنے کا آسان طریقہ اور رسائی فراہم کرے۔

کسانوں کو دوسرے متبادل زرائع پر منتقل کیا جائے۔ بھیڑ چال سے بچایا جائے۔ سائنسی بنیادوں پر فصلیں کاشت کی جائیں۔ مڈل مین کے شکنجے اور عتاب سے بچایا جائے۔

یاد رکھیں کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔

Check Also

Mazeed Jhoot Boliye

By Rao Manzar Hayat