Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Bidati Wahabi

Bidati Wahabi

بدعتی وہابی

ہم پوری گلی میں اکلوتے اہلحدیث ہیں۔ دائیں بائیں اور سامنے کے سارے گھر بریلویوں کے ہیں۔ کونے والا گھر دیوبندیوں کا ہے، دیوبند سے ویسے بھی سلفیوں کا تعلق اہل کتاب کی طرز کا ہوتا ہے، شب برات ہو یا ربیع الاول ہماری گلی میں خاصی چہل پہل ہوتی ہے، ایسی موقعوں پر ہم وہابیوں کا گھر وہ رضیہ ہوتی ہے جو بدعتی غنڈوں میں پھنس جائے۔ کھیر سے بھرے ڈونگے، چکن کی بوٹیوں سے لیس بریانی کے تھال اور بادام کاجو، اخروٹ سے لدیں حلوے کی پلیٹیں مسلکی خیر سگالی کے تحت ایک دوسرے کے گھر سفر کرتی ہیں۔

بریلوی بڑے جانان طبعیت کے لوگ ہوتے ہیں۔ پہلے پہل تو بڑے خشوع و خضوع سے پلیٹیں ہمارے گھر پہنچائی جاتیں تھیں، مگر ہماری والدہ یہ کہہ کر لوٹا دیتیں تھیں کہ ہم بدعتیں نہیں کرتے اور نہ بدعتی کھانا کھاتے ہیں۔ مگر جب ہم بڑے ہوگئے تو خود بھی اچھے خاصے "گمراہ" ہوگئے۔

خدا بھلا کرے ہمارے بریلوی پڑوسیوں کا پوری استقامت سے ہر بار میلاد کا لنگر پہنچاتے ہیں۔ اگر میں گھر پر ہوں تو یہ لنگر بڑی صفائی سے قبول کرتا ہوں۔

پچھلے سال کی بات ہے ہمارے مولوی رشتہ دار مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ میلاد غیر شرعی کام ہے۔ اگر یہ حضور سے محبت کا اظہار ہے تو صحابہ نے یہ کام کیوں نہ کیا۔ میں نے عرض کیا "صحابہ نے تو ختم نبوت کانفرنس بھی نہیں کی تھی، صحابہ نے سیدنا عمر کی وفات کے بعد عمر ڈے بھی نہیں منایا تھا، انھوں نے حضرت عثمان کی شہادت کے بعد دفاع صحابہ کے جلسے بھی نہیں کیے تھے، آپ کی مسجد میں آئے روز دفاع صحابہ یا ختم نبوت کانفرنس ہو رہی ہوتی ہیں۔ کیا یہ بدعت نہیں"۔

مولانا صاحب ایک لمحے کے لیے سٹپٹا گئے اور پھر ابو سے پوچھا یہ زبیر آج کل کس کے پاس بیٹھ رہا ہے۔ کزن نے لقمہ دیا زبیر کسی کے پاس نہیں بیٹھتا لوگ اس کے پاس بیٹھتے ہیں اور گمراہ ہوتے ہیں۔

میں خود کو سب تھوڑا بدعتی قسم کا وہابی سمجھتا ہوں۔ میں میلاد یا شب برات منانے کے ہر گز خلاف نہیں ہوں۔ یہ مذھب سے زیادہ کلچر کا مسلئہ ہے۔ بریلویوں کی مجھے یہی بات پسند ہے، یہ مذھب اور کلچر کے درمیان فرق کو سمجھتے ہیں، مذھب کے نام پر کلچر نہیں چھوڑتے، اس لیئے سب سے زیادہ مذھبی انٹرٹینمنٹ کسی مسلک میں ہے تو وہ بریلوی مکتبہ فکر میں ہے۔ شب برات کو یہ انجوئے کرتے ہیں، رجب کے کونڈوں سے یہ لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں، ربیع اول کے ہر دن کو انجوائے کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی مذہبی انٹرنینمنٹ کے لوازمات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

اب برتھ ڈے کیک کی طرز پر کیک کاٹا جاتا ہے، کاروں اور رکشوں پر مینار رکھ کر انھیں چلتی پھرتی مسجد نبوی بنا دیا جاتا ہے۔ محفل نعت میں چلے جائیں تو یویو ہنی سنگھ کے کنسرٹ کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے۔ بہترین سے بہترین ساؤنڈ سسٹم، ٹاپ کلاس کے سریلے سروں والے نعت خواں اور ان کے اوپر نوٹوں کے بورے الٹنے والے مدنی بھائی۔ محفل کے بعد جو طعام ہوتا ہے، بکرے کی چانپیں، کھیر کے ڈونگے، قورمے کے بوفے، کلونجی لگے روغنی نانوں کی تھان، واللہ، مجھ جیسا خشک وہابی بھی اس موقع پر کہہ اٹھتا ہے۔

"ویسے تو میں سخت لونڈا ہوں پھر یہاں میں پگھل گیا"۔

مذہب کو تو یہ بریلوی انجوائے کرتے ہیں۔ وہابی تو بیچارے صرف آکسیجن ضائع کرنے واسطے ہی پیدا ہوتے ہیں۔

ہم وہابی بڑے خشک مزاج اور سڑیل قسم کے مذہبی ہوتے ہیں۔ انٹرٹینمنٹ کے نام پر دو عیدیں ہوتی ہیں۔ جو سلفی پروٹوکول کی نذر ہو کر کھڈے لائن لگ جاتی ہیں۔ لے دے کر کوئی دو عدد جلسے دفاع صحابہ یا ختم نبوت کے نام پر کیئے جاتے ہیں۔

ایک تو جلسوں میں مقررین کے گلے اتنے سریلے نہیں ہوتی جتنے بریلوی مقررین کے ہوتے ہیں۔ دوسرا نہایت ہی تھکا ہوا ساؤنڈ سسٹم ایسا کہ اگر پڑھنے والا نصرت فتح علی خان ہو تو ساؤنڈ سسٹم آواز کو چاہت فتح علی خان بنا دے گا۔ پانچ گھنٹوں کی سمع خراشی کے بعد جو لنگر ملتا ہے وہ بھی ان کے عقائد کی طرح خشک، چنے کے چاولوں کے تھال پر چار بندوں کو بٹھا کر تواضع کی جاتی ہے۔ ایسے جبری کھانے پر بھی بے ساختہ پپا جانی کی بیعتِ کرنے کا دل کرتا ہے۔

بھئی سیدھی سے بات یہ ہے کہ کلچر ملحد ہوتا ہے اس کا کوئی مذھب نہیں ہوتا، مذھب آسمانی سے زیادہ زمینی ہوتا ہے، وہ کسی نہ کسی کلچر میں پروان چڑھتا ہے، اس کی نشوونما کسی تہذیب میں ہوئی ہوتی ہے۔ اوتاروں، نبیوں کا بھی تہذیبی پس منظر ہوتا ہے۔ وہ آسمانی مذھب کے مبلغ ہو کر بھی زمینی ثقافت کو نہیں چھوڑا کرتے۔ کسی سلفی کے ہاتھ ڈاکٹر اسرار صاحب کا میلاد کا بیان چڑھ گیا جسے وہ غیر شرعی کہہ رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ہو یا غامدی صاحب ان سب کو لگتا ہے، اسلام چودہ سو سال کے عرصے کی کھائی پھلانگ کر ڈبہ پیک صورت میں انھیں مل گیا ہے، اب جو چیز بھی عربی رسوم جسے وہ سنن کا نام دیتے ہیں اس سے ہٹ کر ہوگئی وہ اسے بدعت کی سان پر چڑھا دیں گے۔

ایسا نہیں ہوتا، ہندوستان کی زمین دیوتاؤں کی دھرتی تھی، جس مذھب میں دیوتاؤں کا تصور ہو، اس کے پیروکار ہیروازم کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ چاہے پھر مذھب بدل کر مسلمان بھی ہو جائیں وہ اس ہیرو ازم سے نکل نہیں پاتے، بس اپنے ہیروز بدل لیتے ہیں۔ ہیروازم والے اپنے ہیروز کو سلیبریٹ بھی خوب دل کے ساتھ کرتے ہیں۔ میلاد کو اسی پس منظر میں سمجھنا چاہے۔

احمد رضا خان بریلوی اس نکتے کو بہت پہلے سمجھ گئے تھے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو یہ ملک خشک جھنگویوں سے بھرا ہوتا۔

Check Also

Class Mein Khana

By Rauf Klasra