Zindagi Ka Maqsad
زندگی کا مقصد
کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں دو دن سب سے اہم ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس دن وہ پیدا ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ جب اسے اِس دنیا میں آنے کا مقصد پتہ چل جاتا ہے۔ ہمارے اردگرد انسانوں کا ہجوم پایا جاتا ہے لیکن ان میں سے بہت کم لوگ اپنے مقصد کے بارے میں جانتے ہیں باقی دنیا کے بہاؤ کے مطابق چل رہے ہوتے ہیں یعنی چل سو چل۔
میرے مطابق تو بِنا مقصد کے جینے والے انسانوں کا ہجوم اُس ریوڑ کی مانند ہوتا ہے جنہیں جس طرف بھی ہانک دیا جائے وہ چل پڑتے ہیں۔ کیونکہ بِنا مقصد، گول یا کسی ٹارگٹ کے زندگی ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔
کسی سے پوچھ کر دیکھ لیں کہ اِس دنیا میں آپ کے آنے کا کیا مقصد ہے تو جواب ملے گا "ندارد"۔ سامنے کچھ نظر نہیں آ رہا ہوتا۔ جبکہ جن کو اپنے مقصد کا پتہ ہوتا ہے وہی زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں، اور آگے نکلتے ہیں۔ کیونکہ کامیابی تبھی ہی ملا کرتی ہے جب مقصد اور مقصد تک پہنچنے کا راستہ پتہ ہو۔
آپ کسی نہر یا دریا کے پاس سے گزر رہے ہوں اور آپ دیکھیں کہ ایک بچہ پانی میں ڈوب رہا ہے اور آس پاس اور کوئی بھی موجود نہیں ہے تو آپ کیا کریں گے؟
آپ یقیناً پہلی فرصت میں اُس بچے کو بچائیں گے۔ آپ ایسا کیوں کریں گے؟ کیونکہ آپ کے پاس اِس کی کئی وجوہات ہیں۔ آپ کو اپنے ٹارگٹ کا پتہ تھا۔ یعنی اُس بچے کو بچانا۔ اور وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا اور آپ کو یہ بھی پتہ تھا کہ پانی میں جا کر آپ نے اُسے بچانا ہے یعنی مسئلے کو حل کرنے کا طریقہ بھی آپ کو معلوم تھا۔
بالکل ایسے ہی جب تک آپ کو اپنے مقصد اور اُس مقصد تک پہنچنے کا راستہ نہیں پتہ ہوگا آپ زندگی میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ محنت، لگن اور ہمت ہی آپ کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔ اور یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب آپ کو پتہ ہو کہ آپ نے کیا کرنا ہے اور کیوں کرنا ہے؟
کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں ایک ایسا درویش شخص رہا کرتا تھا کہ وہ جب بھی ناچتا تھا تو بارش ہوتی تھی۔ اُس کے اس عمل کی دھوم بڑی دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ جب جب بارش کی ضرورت ہوتی تو سب لوگ اُس شخص کے پاس حاضر ہو جایا کرتے اور درخواست کیا کرتے کہ وہ ناچے تاکہ بارش ہو۔
ایک بار شہر سے کچھ نوجوان اُس گاؤں میں آئے اور اُنہوں نے جب یہ سُنا کہ ایک درویش شخص کے ناچنے سے بارش ہوتی ہے تو وہ بڑے حیران ہوئے اور وہ نہ مانے کہ ایسا ہو سکتا ہے لیکن جب لوگوں نے بار بار اس بات کی تائید کی تو اُنہوں نے گاؤں والوں سے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے کہ ناچنے سے بارش ہو سکتی ہے تو پھر ہمارے ناچنے سے بھی ہوگی اور پھر یوں گاؤں کے لوگ ان نوجوانوں کے ساتھ اِس درویش کے پاس گئے اور اُسے تمام کہانی سے آگاہ کیا اور پھر یہ طے پایا کہ پہلے نوجوان ناچیں گے پھر وہ درویش شخص ناچے گا تاکہ بارش ہو سکے۔
پہلا نوجوان ناچنا شروع کرتا ہے وہ ناچتے ناچتے تھک جاتا ہے مگر بارش نہیں ہوتی پھر دوسرا نوجوان ناچتا ہے مگر بارش ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اور یوں وہ بھی تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر تیسرے نوجوان کی باری آتی ہے، وہ بھی بہت ناچتا ہے مگر کوئی بادل ہوا بارش کچھ نہیں ہوتا اور وہ بھی ناچنا بند کر دیتا ہے۔ وہ نوجوان گاؤں کے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں کہ ہمارے ناچنے سے بارش نہیں ہوئی لیکن ہم ہار تب مانیں گے جب اِس درویش کے ناچنے سے بارش ہوگی۔ پھر گاؤں والوں کے کہنے پر وہ درویش ناچنا شروع کرتا ہے۔
ایک گھنٹہ گزر جاتا ہے مگر بارش نہیں ہوتی، درویش ناچنا بند نہیں کرتا۔ دو گھنٹے، تین گھنٹے گزر جاتے ہیں مگر بارش ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہوتی۔ لیکن درویش ناچتا ہی رہتا ہے کہ شام کا وقت ہو جاتا ہے اور پھر اچانک ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں، آسمان پر بادل آتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں بارش ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
وہ نوجوان بہت متاثر ہوتے ہیں اور درویش سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے ناچنے سے بارش نہیں ہوئی جبکہ آپ کے ناچنے سے ہوگئی۔ آپ کے ناچنے میں ایسا کیا ہے جو بارش ہو جاتی ہے۔
اُس درویش نے جواب دیا کہ میں جب بھی ناچتا ہوں تو ہمیشہ دو باتوں کو ذہن میں رکھتا ہوں۔ ایک یہ کہ میں اگر ناچوں گا تو بارش ضرور ہوگی اور دوسرا یہ کہ میں تب تک ناچوں گا جب تک کہ بارش ہو نہیں جاتی۔ میرے اِن دو یقین کی وجہ سے بارش ہوتی ہے۔
ہمارے پاس کوئی مقصد ہی نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو مقصد کو حاصل کر لینے کا یقین نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ہم زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ہمارے پاس دوسروں کو بتانے کے لیے اپنی ناکامی کی کئی وجوہات ہوتی ہیں لیکن کامیاب ہونے کی کوئی ایک وجہ بھی نہیں ہوتی۔
اللہ نے ہر انسان کو ایک جیسا دماغ، جسم اور وقت دیا ہے تو ایسا کیا ہو جاتا ہے کہ ایک ہی اسکول کے ایک ہی بینچ پر بیٹھنے والے دو کلاس فیلوز میں سے ایک زندگی میں بہت آگے نکل جاتا ہے جبکہ دوسرا بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
تو کیا آپ کے پاس بھی کوئی مقصد ہے یا بس ایسے ہی اللہ کے پاس واپس چلے جانا ہے؟
سوچئے گا ضرور۔!