Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Islam, Pakistan Aur Censorship

Islam, Pakistan Aur Censorship

اسلام، پاکستان اور سنسرشپ

مجھے بار بار بتانا پڑتا ہے کہ میں نے امریکی یونیورسٹی سے گزشتہ سال اسٹریٹیجک کمیونی کیشنز میں ماسٹرز کیا ہے۔ یہ میں شیخی نہیں بگھارتا بلکہ آگاہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ مجھے ابلاغ عامہ میں جوہری تبدیلیوں اور ماڈرن کمیونی کیشنز کا علم ہے۔ میری بات پر توجہ دیں۔

انٹرنیٹ اور اکیسویں صدی آگے پیچھے آئے ہیں۔ اس دور میں اسلام سے متعلق سنسرشپ سے خود اسلام کو نقصان ہورہا ہے۔ یہ سنسرشپ پاکستان اور کئی مسلمان ملک میں ہے۔ باقی پوری دنیا میں اسلام سے متعلق ہر بات کہی اور چھاپی جارہی ہے۔ سنسرشپ والے ملکوں کے عام مسلمان بلکہ "علما" بھی ان سے ناواقف ہیں۔ جب خبر ہی نہیں تو جواب کیا دیں گے۔ ادھر مغرب میں رہنے والے کروڑوں مسلمان اسلام پر تنقید سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مغربی ملکوں میں ایکس مسلمز کی تنظیمیں بن گئی ہیں اور ان کی رکنیت میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔

مسلمان ملکوں کا نظام تعلیم ناقص ہونے کی وجہ سے لوگ امریکا اور یورپ میں تحقیق کے طریقوں سے نابلد ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں پامسٹ کو پروفیسر کہنے سے وہ یونیورسٹی کا پروفیسر نہیں ہوجاتا، اسی طرح ہمارے علما بھی علما نہیں ہیں کیونکہ انھیں علوم کا پتا ہی نہیں۔ اسلامی علوم کوئی علوم نہیں ہیں۔ آپ محض معلومات کی جگالی کرتے ہیں۔ میں امریکا میں تاریخ کو بطور مضمون پڑھارہا ہوں۔ آئیں اور آکر میری کلاس میں بیٹھیں۔ میں آپ کو بتاوں گا کہ امریکی اسکول کے بچے کیسے تحقیق کرتے ہیں اور ان کا ایک مضمون آپ کے علما کے سیکڑوں مضامین سے کیوں بہتر ہے۔

اوریئنٹلسٹس یعنی مستشرقین ان لوگوں کو کہتے ہیں جن کا تعلق مغرب سے ہے لیکن وہ مشرقی ادب و ثقافت اور تاریخ میں دلچسپی لیتے ہیں۔ مغربی تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے اکثر وہ مشرق کے لوگوں سے بہتر تحقیق کرتے ہیں اور بہتر نتائج فراہم کرتے ہیں۔ ان کے کام کو تعصب کہہ کر مسترد کرنے سے خود مسلمانوں کا نقصان ہوتا ہے۔

میں یہاں بہت بڑا جملہ کہنے جارہا ہوں کہ مستشرقین اسلام کے محسن ہیں۔ مسلمان اپنے تاریخی ورثے کی حفاظت نہیں کرسکے۔ مستشرقین نے اس ورثے کو بچایا۔ میں نے امریکا اور یورپ کے کتب خانوں میں قیمتی کتابوں کو دیکھا ہے۔ یہاں ہر کتاب کے ساتھ ایک صفحے پر اس کی تاریخ لکھی ہوتی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ کس شخص نے کون سی کتاب کب کہاں حاصل کی، پھر کیسے اس نے یا اس کے لواحقین نے کتب خانے کو عطیہ کی یا کتب خانے نے پیسے دے کر اسے خریدا۔ یہ لوٹ کا مال نہیں ہے۔ مسلمانوں نے خود اپنا خزانہ فروخت کیا۔ آپ کی قوم کے چوروں نے پیسے بنائے۔

مستشرقین نے ان کتابوں کو بوریوں میں بند نہیں رکھا۔ ان کے لیے مشرقی زبانیں، خاص طور پر عربی سیکھی۔ ان کتابوں کو پڑھا۔ ان کی حفاظت کا بندبست کیا۔ ان پر تحقیق کی۔ ان سے نتائج اخذ کیے۔ ان پر کتابیں لکھیں۔ ان کے ترجمے کیے۔ ان کی فلمیں بنائیں۔ انھیں اسکین کیا۔ انھیں ڈیجیٹائز کیا۔ انھیں عوام کی دسترس میں رکھا۔

آپ نے کیا کیا؟ کتنے مسلمان ملک ہیں جن کے کتب خانے اناج کے گوداموں سے بدتر ہیں۔ ان کی کتابوں کو کیڑے کھاگئے۔ کتنی کتابیں ہیں جو دنیا سے فنا ہوگئیں۔ آپ بتائیں، کتنی کتابیں ڈیجیٹائز ہوئیں؟ کتنی عوام کو دستیاب ہیں؟

میں بتاچکا ہوں کہ قرآن کے پہلی صدی ہجری کے تمام نسخوں کے عکس میرے پاس ہیں۔ ان میں سے ایک صنعا میں ہے اور ایک مشہد میں۔ باقی تمام مخطوطے یورپی کتب خانوں میں ہیں۔ شکر ہے کہ ان کے پاس ہیں تو تحقیق کے لیے میسر ہیں۔ مستشرقین ان سے استفادہ کرتے ہیں اور مسلسل مقالے اور کتابیں لکھ رہے ہیں۔ مجھے اپنی یونیورسٹی اور لائبریری کی بدولت ان تک رسائی ہے۔ کتنے مسلمان علما ان مقالوں کو دیکھتے ہیں؟

یہ کہنے سے مذاق اڑتا ہے کہ ہر بات کا جواب پہلے ہی دیا جاچکا ہے اور مستشرقین اسلام کے دشمن ہیں۔ طہ حسین، نصر ابو زید، یاسر قاضی اور ان جیسے مسلمان دانشوروں نے مغرب میں تحقیق سیکھی۔ آپ ذرا ان کے خیالات سے واقف ہونے کی کوشش کریں۔ یاد رکھیں کہ مغرب میں جدید تعلیم حاصل کرنے والے لاکھوں مسلمان نوجوان اسلام چھوڑ چکے ہیں اور ان کی تعداد روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔

Check Also

Final Call

By Hussnain Nisar