Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Hashmi
  4. Halka Ilm, Bhari Basta

Halka Ilm, Bhari Basta

ہلکا عِلم، بھاری بستہ

دُنیا سمٹ کر گلوبل ویلج بن چکی ہے، لیکن آج بھی سکول کے بچوں کے بیگز بے تحاشہ بھاری ہوتے جارہے ہیں۔ بعض اوقات تو یہ بیگز اتنے بھاری ہوتے ہیں کہ معصوم بچے بہت مشکل سے اٹھا سکتے ہیں۔ بیگز اٹھا کر بچوں کا چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ان بھاری بیگز سے بچوں کے گھٹنے اور ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوتے ہیں جن سے انکی ذہنی نشوونما بھی متاثر ہوتی ہے۔ خصوصاً دور افتادہ پہاڑی علاقوں، جن میں شاہرات، ٹریفک کا کوئی انتظام نہیں ہے، وہاں اتنا بھاری بھر بستہ اٹھا کر میلوں پیدل سفر، معصوم گلیوں کے لیے سزا سے ہر گز کم نہیں ہے۔

پہلے یہ مسئلہ ترقی یافتہ ممالک کو درپیش ہوا، تو انہوں نے اس کا حل "ای بک" کے ذریعے نکال لیا۔ مگر جب یہ پریشانی ترقی پذیر ممالک کے اسکولوں میں آئی تو اس کا تاحال خاطر خواہ حل نہیں ہو سکا۔ بھاری بستہ بچوں کی علمی صلاحیت میں اضافہ نہیں کر تا، بلکہ ان کی صحت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ کمر متا ثر ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کے ہاتھوں کی کلائی کے پٹھے اور ٹیشوز بھی متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، یعنی پہلے پٹھوں میں تناؤ ہوتا ہے، پھر ان میں سوزش ہو جاتی ہے۔ جو کمسن بچوں کے لیے تکلیف دہ عمل ہے اس شکا یت کو نرسری جماعت سے لے کر پنجم جماعت تک کے طالب علم اکثر کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں۔

ماہرین طب اس مسئلہ پر متفق ہیں کہ ضرورت سے زیادہ بوجھ اٹھانے والے بچوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ یہ پہلی جنگ ِعظیم کے بعد تعلیمی ماہرین نے کہا تھا کہ اسکول کے بستوں کا وزن بچے کے وزن سے دس سے بارہ فی صد سے ہر گززیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اصول پہلی عالمی جنگ کے بعد وضع ہوا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ طویل سفر کے دوران بستہ اٹھانے والے بچے کہیں جلد تھک نہ جائیں۔ اس وقت اس طویل سفر سے مراد کم از کم بیس کلومیٹر کا فاصلہ ہوا کرتا تھا، مگر موجودہ دور میں بچے اسکول جانے کے لیے اب اتنا لمبا سفر پیدل طے نہیں کرتے اوراس وجہ سے یہ قانون فرسودہ ٹھہرا اور اسکول بیگ کا وزن بڑھا دیا گیا۔

کڈز چیک کے عالمی جائزے میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی، کہ بستہ اٹھانے کے معاملہ میں تمام بچے یکساں نہیں ہوتے۔ کچھ بچے اپنے جسمانی وزن کا صرف ایک تہائی وزن اٹھا سکتے ہیں جب کہ کچھ بچے اس سے بھی کم وزن اٹھانے کے اہل ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس سلسلے میں انفرادی عوامل کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے کہ اسکول میں اضافی بوجھ ڈالنے سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بچے کی جسمانی حرکات وسکنات کو مد نظر رکھ کر بنائے جانے والے اسکول کے بستے ہی خریدنے چاہیں کیوں کہ ان کی وجہ سے خاص طور پر ریڑھ کی ہڈی پرغیرضروری بوجھ نہیں پڑتا۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بستہ جسم کے بہت قریب یعنی جسم سے تقریباً چپکا ہوا ہونا چاہیے۔ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ بستہ ڈھیلا یا لٹکا ہوا نہ ہو اور بچے کی استطاعت سے بیگ بہت بڑا نہ ہو، کیوں کہ یہ سارے عوامل بھی بوجھ کا سبب بنتے ہیں۔ اگر اسکول گھر سے مناسب پیدل مسافت پرہو تو چھوٹے طالب علموں کو بھاری بھر کم بستے کے ساتھ سکول جانا کسی سزا سے کم نہیں ہوتا۔ آپ اس بستے کو پہیے بھی لگوا دیں تو بھی اس کو دھکیلنا آسان نہیں کیوں کہ راستہ ناہموار ہوسکتا ہے۔

ایک حل برطانیہ کی اسکول بیگ بنانے والی کمپنی نے ایک سوچ کو عملی شکل دے کر طالب علموں کو اس مصیبت سے نجات دلانے کی کوشش کی تھی، اس کمپنی نے ایک ایسا بیگ تیار کیا جس میں پانی کی بوتل، لنچ بکس اور کتابیں رکھنے کے علاوہ اس کے پہیوں کے ساتھ ایک ہینڈل بھی لگا ہوا ہے۔ بیگ کے ہینڈل کو کھینچ کر اوپر لے آئیں تو ایک قدم پیڈل پر رکھیں اور دوسرے پاؤں سے زمین کو پیچھے دھکیل کر آگے بڑھتے چلے جائیں۔

اس عمل سے طالب علم نہ صرف اپنے بھاری بستے کو اسکول لے جانے میں کام یاب ہوجاتا ہے بل کہ اسے چلانے سے اسے تھکاوٹ بھی نہیں ہوتی، مگر یہ برطانیہ میں ممکن ہے، پاکستان میں نہیں۔ یہاں کی بے ہنگم ٹریفک، کیچڑ زدہ اور ناہموار رستے اس بستے کو چلانے والے بچے کو کسی بھی حادثے سے دوچار کر سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں والدین میں، نئے نظام تعلیم نے یہ فکر پیدا کر دی ہے کہ گود میں پلنے والا بچہ جلد از جلد اسکول داخل کرانے سے شاید وہ زیادہ ذہین اور عقل مند بن جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جس بچے کو اپنی پیدائش کے بعد پانچ سال ماں کی گود سے گھر کی تہذیب وتمدن اور رسم ورواج سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اب بھاری بستے کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ یوں والدین کو بھی ایک طرح کی آزادی حاصل ہو جاتی ہے اور وہ لوگوں کو یہ بتانے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کا کمسن بچہ اسکول جانے لگا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں پرکتابوں کابوجھ لادنا جہاں ان کی بنیادی نشوونما روک دیتا ہے، وہاں ان کو تعلیم سے بھی بے زار کردیتا ہے۔

اسپین کے طبی ماہرین نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر کہا ہے کہ اسکول جانے والے بچوں کو اپنے وزن سے 10 فی صد سے بھی کم اسکول بیگ اٹھانے چاہیں۔ وہ بچے جو اپنے ذاتی وزن سے 10 فی صد زیادہ اسکول بیگ اٹھاتے ہیں انہیں کندھوں اور کمر درد کی تکلیف لا حق ہو جاتی ہے اور ان کے جسم بد ہیت ہوجاتے ہیں۔ مشقت اور ورزش میں یہ ہی فرق ہے کہ ورزش جسم کو بدہیت نہیں ہونے دیتی جب کہ مشقت اس کے اُلٹ کام کرتی ہے۔ اسپین کے ماہرین نے 1403 طلبا پر تحقیق کی جن میں سے 12 سال سے 17 سال کی عمر کے 11مختلف اسکولوں کے بچوں کو شامل کیا گیا تھا۔

تحقیق سے عیاں ہے کہ جن بچوں کے اسکول بیگ کا وزن ان کے اپنے وزن کے 10 فی صد سے زیادہ تھا ان میں سے 66 فی صد بچے کمر درد کی تکلیف میں مبتلا پائے گئے۔ اس سروے کے مطابق اسکول کے بھاری بھرکم بستوں نے بچوں کو کمر کے علاوہ گردن کے درد میں بھی مبتلا کر دیا تھا، طبی ماہرین کے مطابق ایسے بستوں کی وجہ سے پندرہ سال تک کی عمر کے بچوں میں گردن کے درد کی تکلیف میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک بچہ تقریباً روزانہ بارہ کلو وزن اپنے کندھوں پر اْٹھاتا ہے جو ان کی ہڈیوں پر غیر ضروری دباؤڈالتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنی کم عمری میں بچوں کا ان تکالیف میں مبتلا ہونا انتہائی خطرناک ہے۔

ٹیکنالوجی کی اس دنیامیں ترقی یافتہ ممالک نے اس مسئلے کے حل کے لیئے ڈیجیٹل کتابوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ کئی جگہوں موبائل اپیلی کیشن کا استعمال کیا جا رہا ہے، پاکستان کے بھی کچھ شہروں میں موبائل اپیلی کیشن کا استعمال ہو رہا ہے، جس میں بچے کمپیوٹر/موبائل کی مدد سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اور یہ بھاری بھر کم کتا بوں سے ان کی جان چھوٹ چکی ہے یہاں تک بھی انہوں نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ ان کا ہوم ورک بھی ای میل کے ذریعے والدین کو مو صول ہو جاتاہے ان کے بچے گھرپر کام کرتے ہیں۔ اور اسکول میں چست اور توانا رہتے ہیں جس کاان کی صحت پر مثبت اثر پڑ تا ہے۔ بیرون ممالک واقع اسکولوں کا ایک یہ بھی خاصہ ہے کہ ایک مضمون کی بے تحاشہ کتابوں کے بجا ئے اہم ترین ٹیکسٹ بکس پر توجہ دی جاتی ہے۔ ہمیں بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے، تاکہ جہت کے ساتھ، آسانی سے علم کی راہ ہموار ہو سکے۔ اور بھاری بھر بوجھ سے نونہال ِقوم کو آزاد ی ممکن ہو سکے۔

Check Also

Pakistan Ke Door Maar Missile Programme Se Khatra Kis Ko Hai

By Nusrat Javed