Maskini Se Sultani Tak
مسکینی سے سلطانی تک

بے شمار درود و سلام آقائے دو جہاں سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔
حضرتِ انسان کے سامنے ہر دور میں یہ سوال رہا ہے کہ اِس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے، اِس زندگی کا مقصد کیا ہے، مالکِ کائنات نے ہمیں یہ وجود کیوں عطا کیا ہے، اِس میں قدرت کے کیا راز پوشیدہ ہیں، ہم دنیا میں کیا کرنے آئے ہیں، کون سے ایسے کام ہیں جو کہ ہمیں سر انجام دینے ہیں، کیا دنیا میں آنے کا مقصد کچھ بھی نہیں، صرف ایک حیاتیاتی سائیکل کو مکمل کرنا ہے۔
ایسا بالکل بھی نہیں ہے، کسی بھی انسان کا اِس دنیا میں آنا ایک بہت بڑا واقعہ ہے، آپ کے وجود کے پیچھے کائنات کی لاکھوں سال کی انویسٹمنٹ ہے، آپ کا دنیا میں آنا بے کار نہیں ہے اور پھر دنیا سے جانا بھی بیکار نہیں ہے، مالکِ کائنات نے ہر انسان کو اپنی خصوصیات عطا کرکے دنیا میں بھیجا ہے، آپ یہ دیکھیے کہ آپ کے ساتھ کتنے انسان وابستہ ہیں جن میں ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچے، رشتہ دار، یار دوست اور اِس سے کہیں آگے یہ دائرہ بڑھتا ہی جاتا ہی، ہر انسان دوسرے انسان کا چہرہ ہے دوسرے انسان کا آئینہ ہے۔
یہ جو آپ گندم کھاتے ہیں ذرا غور کیجئے کہ یہ کس کس عمل سے گزر کر آپ تک پہنچتی ہے، کوئی کسان زمین میں بوائی کرتا ہے، ہل سے زمین سینچتا ہے، زمین کی خدمت کرتا ہے کوئی دوسرا انسان اس کو سیراب کرتا رہتا ہے، تیسرا کاٹ کے اس کو چھانٹتا ہے، چوتھا چھانٹ کے وہ گندم بازاروں تک پہنچاتا ہے اور بازاروں میں ایک انسان اِس کو پیستا ہے اور پیس کر پھر آپ تک پہنچتی ہے، تو صرف ایک گندم کی بوائی میں کتنے انسان شامل ہو گئے، اِسی طرح تمام دوسری اشیاء اور سہولیات ہیں جو کہ ایک انسان صرف اور صرف دوسرے انسان کی وجہ سے ہی حاصل کر رہا ہے۔
پیدائش سے لے کے مرنے تک انسان ہی وقت کے دائرے میں شامل ہیں، آپ کو جنم بھی ایک انسان ہی دیتا ہے اور مرنے کے بعد قبرستان بھی انسان ہی چھوڑ کے آتے ہیں، تو زندگی میں انسان کا انسان سے تعلق بہرحال موجود ہے اور موجود رہے گا، انسان کی پیدائش کا مقصد زندگی کا سامنا کرتے ہوئے اپنے گرد و پیش کے انسانوں سے وابستہ رہتے ہوئے حقیقتوں تک کا سفر کرنا ہے۔
حقیقتوں کے مسافر کو حکم ہے کہ پہلے بے ضرر ہونا ہے انسانوں کے لیے اور پھر فائدہ مند ہونا ہے انسانوں کے لیے، فقیری شروع ہی بے ضرر ہونے سے ہوتی ہے اور پھر فائدہ مند ہونے پر ختم ہوتی ہے، بے ضرر انسان نہ تو کسی انسان کا گلا کرتا ہے اور نہ ہی خدا کا گلا کرتا ہے، اِس کے گرد و پیش جو واقعات رونما ہو رہے ہیں اِس سے بے اعتنا ہو کر وہ حقیقتوں کا سفر جاری رکھتا ہے، یہ دراصل مسکینی سے سلطانی تک کا سفر ہے۔
نہ کسی کا گلا نہ کسی سے شکایت، سر جھکا کر زندگی گزارنا مسکینی ہے، زندگی کرنا حقیقتوں کے مسافر کے لیے مشکل ہو جاتا ہے اور وہ وصل کے انتظار میں زندگی کرنے کے عمل میں شامل ہوتا ہے، دنیا دار کے لیے زندگی کا اختتام موت کہلاتا ہے، لیکن حقیقتوں کے مسافر کے لیے موت وصل ہو جاتی ہے، بزرگوں نے موت کے دن کو میلہ بنا لیا ہے، آپ نے وہ کلام سنا ہوگا۔۔
آج رنگ ہے ری ماں رنگ ہے
میرے محبوب کے گھر رنگ ہے
سبحان اللہ۔
جب مسکینی عطا ہو جاتی ہے تو دنیا والوں کے لیے وہ مسکینی ہوتی ہے لیکن دراصل وہ سلطانی ہے، حقیقتوں میں ضم ہوا شخص جو بھی دعا کرے قبول فرما لی جاتی ہے، لیکن دعا رہتی کہاں ہے اُس مقام پر، اُس مقام پر تو دعا کرنا بڑی ہی شرمندگی کی بات سمجھی جاتی ہے، اگر اللہ تبارک و تعالی مل جائیں اُس مقام کے بعد تو فقیر کے لب پر کوئی دعا نہیں رہتی، وہ تو حقیقتوں کے مشاہدے میں غرق ہوتا ہے اور وہ ذات اتنی وسیع ذات ہے کہ اُس کا مشاہدہ ذات سے شروع ہوتا ہے اور پھر ذات کا ہی سفر ہے، جس کا کوئی اختتام نہیں۔
اُن سے ملنے کو تو کیا کہیے جگر۔
خود سے ملنے کو زمانہ چاہیے
حقیقتوں سے ملاقات کے لیے یہ زندگی بہت مختصر ہے، بلکہ یوں سمجھیں کہ ایک چھوٹا سا پڑاؤ ہے، جس کو یہ بات سمجھ آ جاتی ہے وہ وصل کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے، میلے میں اکیلا ہو کر، زندگی بھی ایک انتظار ہی بن جاتی ہے، شاعر نے کیا خوب عکاسی کی ہے اِس کیفیت اور اس سفر کی۔
یہ غمز و ناز کی فوج کشی۔
اے دلبر تیری خاص ادا
کیا دل پہ میرے جادو ہے کیا۔
مسکین سے میں سلطان ہوا۔
حیران ہوا حیران ہوا
اللہ پاک آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے