Majzoob Kon
مجذوب کون

لاکھوں کروڑوں درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔
مجذوب اللہ تبارک و تعالی کی مشیت اور محبت کے مشاہدے میں گم ہو جانے کا نام ہے۔
مجذوب زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے اور ہمہ وقت ایک ہی نظر ایک ہی مشاہدے میں غرق رہتا ہے۔ مجذوب کو محبوب کنٹرول کرتا ہے۔ یہ ایک ہی کیفیت میں جامد ہو جاتا ہے۔ اِس کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں رہتی۔ زمان و مکان سے بے نیاز موسموں کی تبدیلی سے بے نیاز وہ ایک ہی مشاہدے میں غرق اور محوِ سفر ہوتا ہے۔
اگر اِس کو محبوب کہہ کے چلا گیا ہے کہ میں واپس آوں گا تو وہ اِسی انتظار میں برس ہا برس کھڑا رہتا ہے۔ اگر کوئی اِس سے پوچھے گا کہ بہت وقت ہوگیا ہے تو وہ یہی کہے گا کہ ابھی کل کی تو بات ہے آتا ہی ہوگا۔ وقت کا گزرنا اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اسے وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہیں رہتا۔
عام انسان اپنی زندگی میں ایک توازن قائم رکھتا ہے اور زندگی کے معاملات کو ایک متوازن طریقے سے نبھاتا چلا جاتا ہے، جیسے صبح اٹھنا، آفس جانا، آفس سے واپس آنا، رات کو سونا، کھانا، وغیرہ لیکن مجذوب کے لیے زندگی کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے ایک ہی موسم ہوتا ہے۔ وہ ایک ہی جلوے میں گم رہتا ہے۔ ہر وقت عالمِ حیرت یا عالمِ تخیر میں ہوتا ہے۔
عام طور پر مجزوب کی دو قسمیں ہوتی ہیں پہلی قسم جو ہے وہ بیک وقت مجذوب بھی ہوتا ہے اور سالک بھی ہوتا ہے۔ سالک وہ عام انسانوں کے لیے ہوتا ہے کہ اُن کو روحانی، دینی اور دنیاوی معاملات پر اپنی رائے دیتا ہے۔ رہنمائی کرتا ہے۔
اس قسم کی ایک واضح مثال مولانا روم کی ہے مولانا روم کو مجزوبیت میں لے کے جانے والے شاہ شمس تبریزؒ تھے، وہ خود ایک مجذوب تھے، پہلے مولانا روم ایک عالم کی حیثیت رکھتے تھے لیکن شاہ شمس تبریز سے ملاقات کے بعد وہ بیک وقت سالک اور مجذوبیت کی کیفیت میں آگئے۔ مثنوی روم دراصل مجذوبیت کی کیفیت میں لکھی گئی ہے، جس کو پڑھ کے حضرت اقبالؒ مولانا روم کے مرید ٹھہرے۔ سالک وہ عام انسانوں کے لیے تھے، مجذوبیت میں جو علم اُن کو عطا ہوتا تھا وہ عام انسانوں کے لیے وقف کرتے تھے۔
دوسری قسم کے مجذوب حیرت کدے میں محوِ مشاہدہ ہوتے ہیں۔ وہ کچھ بات نہیں کر سکتے اُن کی ذات صرف اور صرف مشاہدے میں گم ہوتی ہے۔ عام طور پہ تین قسم کا مشاہدہ ہوتا ہے ایک ہوتا ہے ذاتِ حق کا مشاہدہ، دوسرا ہوتا ہے ذات کے سفر کا مشاہدہ جو کہ سفر ہی سفر ہے اور تیسرا ہے سرکار ﷺ کے عشق کی ایک جہت کا مشاہدہ، مجذوب نام ہی اُن کا ہے جو کہ اپنی زندگی میں توازن برقرار نہیں رکھ سکتے اُن کی دنیاوی ضرورتوں کی پرواہ ارد گرد کے لوگ اور دنیا دار کرتے ہیں۔ انہیں اپنی ضرورتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، نہ ہی خیال ہوتا ہے عام انسان زندگی کی رنگینیوں اور موسموں کو دیکھتا ہے۔ جبکہ مجذوب کے دل کا موسم ایک ہی ہوتا ہے اس کی ذات کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے۔ وہ ایک ہی جلوے میں گم رہتا ہے۔
قلندر بھی مجذوب ہوتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ وہ دو جہتی مجذوب ہیں، ایک طرف سالک اور دوسری طرف مجذوب۔ مجذوبیت سے وہ علم حاصل کرتا ہے اور سالک بن کر لوگوں تک پہنچاتا ہے۔
مجزوب کبھی مخفی ہو جاتا ہے اور کبھی گویا ہوتا ہے۔ ہر وقت عالمِ تخیر میں گم بعض اوقات مقامِ منزل سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔
خبر تخیر عشق سن
نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ ہی میں
جو رہی سو بے خبری رہی
خبر تخیر عشق دراصل بے خبری ہی ہوتی ہے، جہاں ہونا نہ ہونے کے برابر ہے۔
اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔