Aankhen Aik Hairat Kada
آنکھیں اک حیرت کدہ

لاکھوں کروڑوں درود و سلام سرکار دو عالم ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔
انسانی جسم میں سب سے پراسرار عضو آنکھیں کہیں جا سکتی ہیں۔ بلکہ اگر کوئی نوری چیز انسانی جسم میں ہے تو وہ آنکھیں ہی ہیں۔
عجب راز ہے قدرت کا، آنکھ بعد میں بنی پہلے نظارے تخلیق کیے گئے، آنکھ کے لیے اللہ تعالی نے کائنات پہلے تحقیق کی اور انسان کو آنکھیں بعد میں عطا ہوئیں۔ بلکہ نظارہ نام ہی تمہاری آنکھ کا ہے۔ آنکھیں نہ رہیں تو نظارہ بھی نہیں رہتا۔ آنکھیں کھلی ہوں تو محدود، بند ہو جائیں تو لامحدود۔
تحیل کی پہلی خوراک آنکھ سے ہی ملتی ہے۔ آنکھ ہی وہ نظارہ وہ خوراک مہیا کرتی ہے جس سے کہ تخیل کو پر لگ سکیں۔ رب ملنے کے بہت سے راستے ہیں جیسے نظارہ یا آواز، کوئی ایسا جملہ کوئی ایسا کلام کوئی ایسا شعر کان سنتے ہیں اور بات سمجھ آ جاتی ہے۔
دوسرا طریقہ ہے آنکھ جو رب کے متلاشی ہوتے ہیں اُن کو نظارے کے ذریعے اللہ تعالی کی مشیت دکھائی جاتی ہے۔ اُن کو ایسا منظر عطا ہوتا ہے کہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔
اگر آنکھ نہ ہوتی تو کائنات کا مشاہدہ ممکن ہی نہیں تھا۔ یہ رنگ رنگینیاں آنکھ ہی کی مرہون منت ہیں، قدرت نے جس ذوق کا اظہار رنگ دار، خوشبودار کائنات کو بنا کر کیا ہے اس کی گواہ صرف آنکھیں ہی تو ہیں۔ آنکھیں ہی داد دے سکتی ہیں اس شاہکار کا جو آنکھوں کے لیے ہی تخلیق کیا گیا ہے۔
آنکھ عجب شاہکار ہے کیمرے کی طرح کام کرتیں ہیں اور تصویریں کھینچ کھینچ کے وجود کی ایلبم میں جمع کرتی جاتی ہیں۔ لیکن عجب راز ہے کہ یہ خود کو نہیں دیکھ سکتیں۔ خود کو دیکھنے کے لیے چشم آئینہ چاہیے۔ آنکھ کا حسن دیکھنا ہے تو آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے۔
آئینہ ہی آنکھوں کو باطن میں اترنے کا راستہ بتاتا ہے۔ آنکھ ہی عرفانِ ذات کی منزلوں کو روانہ کر سکتی ہے۔ کوئی منظر کوئی نظارہ دیکھ کر آپ کو تخیل میں جذب کر دیا جاتا ہے اور تخیل وجود کے مختلف حصوں کو پیغام پہنچاتا ہے اور اس منظر کے راز افشاں کرتا جاتا ہے، اِس منظر کی خوبصورتی کا جو عرفانِ ذات ہے اُس کی منازل طے ہو جاتی ہیں۔
آنکھوں کا بیان آنسو ہیں جو کہ آنکھ ہی کی بدولت ہیں۔ آنسو بھی ایک راز ہے انسان کو جو واحد اظہار قدرت نے عطا کیا ہے وہ آنسو ہی ہیں۔ واحد اظہار! زبان و بیان بھی تو ہو سکتے، لیکن نہیں، زبان و بیان کی تاریخ 40-50 ہزار سال سے پرانی نہیں ہے۔
قدرت نے جو اظہار انسان کو عطا کیا ہے وہ آنسو ہی ہیں، ایک بچہ جس کو کیفیات سے تعارف نہیں ہوتا، آنسو ہی تو ہیں جو کہ اس کے اظہار میں مدد دیتے ہیں آپ روئیں تو اظہار آنسوؤں، ہنسیں تو اظہار آنسوں، رقت طاری ہو تو آنسو ہی پیغام رساں۔ آنکھ خود ایک نظارہ بھی تو ہے لیکن دوسرے کی آنکھ، چشمِ بینا دیکھ سکتی ہے وہ احساسات جو کہ آنکھ سے عیاں ہو جاتے ہیں۔ جیسے اداس آنکھیں، منتظر آنکھیں، حیرت زدہ آنکھیں، خوف زدہ آنکھیں، تبسم اور غم کی کیفیات کو بھی آنکھوں کے ذریعے ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ لیکن اِن سب کو دیکھنے کے لیے بھی آنکھ ہی چاہیے بلکہ چشمِ بینا چاہیے۔
آنکھیں پہلے انسان کو محبوب بناتیں ہے پھر خیال کو سگنل دیتی ہیں کہ اِس کو حُسنِ خیال میں بدلا جائے اور پھر خود ہی منتظر ہو کے محبوب کی راہ دیکھتی ہیں اور تر ہو کے فراق سے وصل کا انتظار کرتی ہیں۔
آنکھوں کا یہ احسان ہے کہ وہ صاحبانِ فکر کو خوراک مہیا کرتی ہیں۔
جلوے کے اندر جلوہ دیکھنا اور آئینے کے اندر آئینہ دیکھنے کی صلاحیت آنکھ ہی میں ہے۔
آنکھ مختلف رنگ کی ہو سکتی ہے جیسے شربتی آنکھیں، نیلی آنکھیں، براؤن آنکھیں وغیرہ، لیکن سب سے پراسرار کالے رنگ کی آنکھیں ہیں۔ جیسے کہ اِن میں کائنات کے راز چھپے ہوئے ہوں۔
بدبختی کا سفر بھی آنکھ ہی سے شروع ہوتا ہے، انسان بعض اوقات اُن ناروا مناظر کا عادی ہو جاتا ہے جو کہ اُس کی بدبختی کی علامت بن جاتے ہیں اور عاقبت کے سفر میں رکاوٹ کا موجب بنتے ہیں اور حضرتِ انسان کو گناہ کی وادیوں میں لے جاتے ہیں۔
محبوب کا دیدار بھی اُن آنکھوں کو نصیب ہوگا جو کہ ناروا مناظر سے چھپتی رہی ہیں۔
اللہ پاک آپ کو اسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔