Bane Dam Saaz Aur Yawar Na Bane
بنے دم ساز اور یاور نہ بنے
دوستی لوگوں کے درمیان باہمی پیار کا رشتہ ہے۔ یہ باہمی تعلق کی ایک مضبوط شکل ہے۔ پر میرے جیسے کے لئے کہ جس کا کوئی بھائی نہ ہو یہ محض باہمی تعلق تک محدود نہیں رہتا۔ ظاہری سمجھداری کی عمر سے لیکر چالیسویں سال میں قدم رکھنے تک میں اپنے قریبی دوست، احباب میں بھائی کے رشتے کو تلاش کرتا رہا ہوں۔
میں آج تک کئی ایک بار کی دھتکار کے باوجود مکمل طور پر اس کیفیت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پایا۔ شاید اس لئے کہ میں اکلوتا ہونے کی وجہ سے بھائی ہونے کی اصل رمزیت کے احساس سے قطعی نابلد ہوں۔ اس لئے ہر بار دانستہ یا غیر دانستہ طور پر خود کو ایسے تجربے کے لئے تیار کر لیتا ہوں کہ چلو اس بار ذرا چلن بدل کے دیکھتے ہیں شاید بھائی ہونے کہ احساس کو پا لوں اور سچ میں کوئی بھائی مل جائے۔
میرے اندر یہ احساس اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے ایک عرصے تک رہا اور شاید جزوی طور پر اب بھی ہے۔ اکیلے ہونے کا احساس نہ صرف خوفناک ہوتا ہے پر خاصہ تکلیف دہ بھی۔ اس بات کا احساس مجھے سب سے زیادہ شدت کے ساتھ تب ہوا جب میرے بابا کینسر کے مرض میں مبتلا اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے اور میری نئی نوکری کی وجہ سے مجھے چھٹی میسر نہ تھی۔ ایس آئی یو ٹی کراچی کے آنکالوجی وارڈ میں مریض کے ساتھ تیماردار (اٹینڈنٹ) کا ہونا لازمی تھا اور میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا سوائے اس کے کہ میں بابا کے ساتھ رہوں۔
ان دنوں جب بابا کے ساتھ مسلسل رت جگوں کے بعد میری تھکاوٹ آنکھوں سے جھلکتی تھی تو وہ کہا کرتے کہ تم جاؤ کچھ دن آرام کر آؤ اور نئی نوکری ملی ہے اس لئے اس طرح کی غیر حاضری اچھی نہیں۔ تم جاؤ کچھ دن کوئی اور آ جائے گا۔ تب میں ان سے از راہ تفنن کہتا کہ واہ بھائی واہ کہہ تو ایسے رہے ہیں جیسے میرے پیچھے بھائیوں کی فوج ظفر موج جنی ہو۔ آپکی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ آپکی کل محنت کا نتیجہ ایک میں ہی ہوں۔ اس لئے جلد سے جلد تندرست ہو جائیں تاکہ گھر چلیں۔
باپ تو پھر باپ ہوتا ہے اس لئے میری حالت ان سے برداشت نہ ہوتی تو کہتے کہ اچھا پھر کسی دوست کو ہی بلا لو اور میرے پاس سوائے خاموشی کے اور کوئی راہ فرار میسر نہ ہوتی۔ کیونکہ میرا ماننا ہے کہ دوست ہوتا ہی وہ ہے جس کو بوقت مشکل بلانا نہیں پڑتا بلکہ وہ یار کی تکلیف کا پتا چلتے ہی خود یاوری کے لئے چلا آتا ہے۔ اس دن مجھے اس حقیقت کا احساس ہوا کہ ایک انسان کو ہمہ وقت اپنی یاوری کے لئے خود تیار ہونا چاہیئے جبکہ امید فقط خالقِ کائنات سے باندھنی چاہیئے۔
کہتے ہیں دوستی، بھائی ہونے سے زیادہ خوبصورت رشتہ ہوتا ہے، کیونکہ آپ اسے اپنے اختیار سے اپناتے ہیں۔ سنا تو یہ بھی تھا کہ دوستی میں اگلے کی کجیوں کو بہر صورت نظر انداز کیا جاتا ہے اور جب آپ کسی کو دوست مانتے ہو تو اس کو بشمول اس کی اچھائیوں اور برائیوں کے اپنا بناتے ہو اور اس کے مسرت کے لمحوں میں دم ساز جبکہ مشکلوں میں اس کے یاور و مددگار بن جاتے ہو۔
پر میں جن تجربات سے گزرا ہوں ان میں حقیقت حال کچھ الگ ہی رہی۔ میرے سنگی ساتھی راحت کے لمحوں میں دم سازی کو تو بصد شوق میسر رہے پر سختی کے موسموں میں نہ صرف یاوری سے گریزاں نظر آئے بلکہ تندیءِ حالات سے نبرد آزمہ ہونے اور خاص طور پر حق گوئی کے لئے جو تھوڑی سی ہمت میں خود سے جٹاتا اس کو بھی زمانے کی پُر آشوبی کے ڈَراوے دے کر زائل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے۔
یہ شاید اس لئے بھی ہو کہ وہ مجھ سے زیادہ حقیقت پسند اور زمانے کے لوگ ہیں۔ وہ کہ جنہوں نے بادِ مخالف سے ٹکرانے کے بجائے پانی کے بہاؤ کے ساتھ چلنے کو ترجیح دی۔ میرا مختلف سماجی مسائل پر فطری ردعمل اور برجستہ پن (جو کہ میرے دوستوں کے نزدیک میری دریدہ دہنی ٹھہرا) ان کے لئے سماجی عدم تحفظ کے احساس کا باعث بنتا تھا۔ جس کا اظہار وہ مجھے سمجھانے اور ایسی روش سے باز آ جانے کی صورت میں کرتے رہتے تھے۔ گو کہ وہ حکم نہیں کرتے تھے اور محض سمجھاتے تھے پر وہ ہمیشہ چاہتے تھے کہ میں بدل جاؤں اور ان جیسا حقیقت پسند نیز زمانے والا بن جاؤں۔
جبکہ میرے دل میں یہ خیال کبھی نہ آیا کہ وہ بدل جائیں۔ کیونکہ میں نے ان کو دل سے اپنایا ہوا ہے ایسے کہ جیسے وہ ہیں۔ اور خیال یہ تھا کہ وہ بھی مجھے اپنائے ہوئے ہیں کہ جیسا میں ہوں، کیونکہ بہرحال دوستی کی تعریف "باہمی" تعلقات کی ایک مضبوط شکل ہے۔ لیکن نہ میں بدلا اور نہ وہ مجھے ویسا قبول کر پا رہے تھے کہ جیسا میں ہوں اور نتیجتاً آج ایک ہی شہر کی فضا میں سانس لینے کے باوجود ہم میں کافی دوری ہے۔
سچ کہوں تو جن کو آپ دوست جانتے اور مانتے ہیں ان سے دور رہنا کوئی آسان کام نہیں خصوصاً جب آپ ایک ہی شہر میں رہتے ہوں اور ان چند نفر کے علاوہ آپ کا کوئی اور حلقہءِ احباب نہ ہو۔ پر جب آپ کو یہ احساس ہو نے لگے کے آپ کے دوست آپ کی وجہ سے عدم تحفظ کا احساس پالے ہوئے ہیں تو پھر یاری کا تقاضہ یہی بنتا ہے کہ ان سے ایک حد تک فاصلا بنا کے رکھا جائے۔
انگریزی کی ایک کہاوت اسکول میں پڑھی تھی کہ ایک سچا دوست وہ ہوتا ہے جو آپ کی مدد کرتا ہے جب آپ مشکل میں ہوتے ہیں نہ کہ وہ جو آپ کو مشکل میں مبتلا کر دے۔ اسی لئے یاروں کی مشکل آسان کرنے کا مجھے اس سے زیادہ بہتر حل نہیں سوجھا کہ ان سے تھوڑا دور ہو جاؤں۔ البتہ اس دوری کے بعد میں پھر نئے دوست بنانے کی ہمت کبھی نہیں جٹا پایا۔
اب جب اکیلا محسوس کرتا ہوں تو جو پہلے بزم یاراں میں بیٹھ کے بولتا تھا اب اسے لکھنا شروع کر دیتا ہوں۔ اور بھلا ہو "ہم سب" کا کہ جس نے میرا لکھا ہوا کبھی "کالم"، کبھی "بلاگ" تو کبھی "میرے مطابق" کی درجہ بندی کے لئے منتخب کر کے چھاپ دیا جس سے مجھے بالیقین اپنی ذات کا یاور ہونے کا احساس ہوا۔ اس کے بعد میں نے ہمیشہ خود کو اپنا سب سے اچھا دوست، یاور اور مددگار پایا۔
کچھ دن پہلے دوستوں نے ایک دعوت رکھی جس میں انہوں نے تقریباً تین (03) سال کے بعد مجھے مدعو کیا۔ اور ہم تو اس عزم کے قائل تھے کہ دوست بھلے صدیوں کے فاصلے پہ ہی پکاریں تو بھی ہم برملا چلے جائیں گے۔ سو ایک بار پھر ہم بھی آ دھمکے بزمِ یاراں میں۔ گفتگو غیر رسمی رہی، قہقہوں کا دور چلا، بات سے بات نکلی اور پہلی بار یہ سننے کو ملا کہ اب میری سوچ خاصی مثبت ہوگئی ہے۔
محفل برخاست ہوئی اور میں یہی سوچتا رہا کہ آج کس معجزے کے تحت ان کو میرا لب و لہجا مثبت لگا۔ کافی دیر غور و خوض کے بعد اندازہ ہوا کہ میں نے پورا وقت ان سے انہی کی طرح پیش آیا۔ مطلب زمانے کا بندہ بن کے انکی تعریف کے مطابق حقیقت پسند بن کر پیش آیا اور سب سے زیادہ ان کی ہاں میں ہاں ملا کے۔ پر اب سوچتا ہوں کہ یاروں کی خوشی کے لئے کچھ دیر تو ہاں میں ہاں ملائی جا سکتی ہے پر اس کے لئے خود کو یکسر بدل دینا شاید ممکن نہ ہو۔
میری شخصیت کی مثبت تصویر کشی کرنے کے باوجود ایک بات کا پھر بھی دبے الفاظ میں احساس دلوانے کی کوشش کی گئی کہ اچھا رہے گا اگر میں لکھنا اور فیس بک پر پوسٹ رکھنے سے گریز کروں۔ اس بات نے مجھے پھر ان کے عدم تحفظ کا احساس دلایا۔ باوجود اس کے میں نے نہیں چاہا کے وہ میری وجہ سے اپنی سوچ بدلیں پر نہ جانے کیوں اس وقت مجھےحضرتِ امجد اسلام امجد کا یہ شعر بہت یاد آیا۔
کہ
الگ الگ سہی دنیا کا اور دوست کا غم
کبھی یونہی ذرا دیکھو انہیں ملا کر بھی۔
بے شک یہ دنیا محبت کے رشتوں کی وجہ سے ہی انسانوں کے رہنے کے قابل بنی ہے جس میں سب سے منفرد دوستی کا رشتہ ہی ہے۔ پر دوستی اس وقت بے معنی ہو کے رہ جاتی ہے جب اس میں دم سازی تو ہو پر یاوری کی اہلیت نہ رکھتی ہو۔ بس اب زیادہ کچھ نہیں کہتا آخر میں جنابِ نیر ندیم کے اس شعر پر اختتام کرتا ہوں، وقت نکال کر اس پر بھی غور کیجیئے گا۔
بجھے چراغ پہ ہم دوستی پرکھتے ہیں
یہ رسم اپنے قبیلے میں ابتدا سے ہے۔