سابق وزیرِاعظم عمران خان…کچھ ملاقاتیں اور یادیں (2)
عمران خان صاحب شبقدر تو نہ آسکے مگر ایک سال بعد جب میں لاہور پولیس کا سربراہ تھا تو ملکۂ برطانیہ سرکاری دورے پر لاہور آئیں، برٹش کونسل نے ان کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا تھا، جس میں کچھ اور معززین کے علاوہ عمران خان اور ان کی اہلیہ جمائما خان بھی مدعو تھے۔
وہاں ان سے مختصر سی ملاقات ہوئی جس میں انھوں نے جمائما خان کے ساتھ میرا بڑے اچھے الفاظ میں تعارف کرایا۔ اس کے چند سالوں بعد مشرف دور شروع ہوگیا تو میری نیشنل پولیس اکیڈمی میں تعیناتی ہوگئی جہاں میں نوجوان اے ایس پی صاحبان کی ٹریننگ کا انچارج تھا۔
ہم نے پولیس اکیڈمی سواں کیمپ میں اسپورٹس گالا منعقد کیا اور مہمانِ خصوصی کے طور پر عمران خان صاحب کو مدعو کیا۔ انھوں نے میری دعوت فوراً قبول کرلی۔ اکیڈیمی کے سربراہ خاصے جزبز ہوئے کہ ایک سیاسی لیڈر کو کیوں بلایا ہے؟ میں نے جواز یہ گھڑا کہ اسپورٹس گالا کے موقعے پر اسپورٹس کے سپراسٹار کو مدعو کیا گیا ہے۔
چونکہ ہماری سرکاری روایت اور کلچر، چڑھتے سورج کی پوجا کرنا ہے اور عمران خان کے بارے میں اُس وقت یہ گمان تک نہیں تھا کہ اس کے اقتدار کا سورج بھی چڑھے گا، لہٰذا ان کے آنے پر سینئر افسر انھیں بے دلی اور سردمہری سے ملے مگر نوجوان اے ایس پی صاحبان نے گرمجوشی کا مظاہرہ کیا۔ کھانے کے بعد باقاعدہ تقریب شروع ہوئی تو میں نے اپنے تعارفی کلمات میں انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا "عمران خان صاحب! آپ نے ہمیشہ جان لڑا کر میچ جیتے ہیں، اگر سیاست کے میدان میں جدوجہد کے بجائے بیک ڈور استعمال کریں گے(اُس وقت خان صاحب ایک ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے حمایتی تھے) تو اپنے مداحوں کو مایوس کریں گے۔
عمران خان صاحب نے اپنی تقریر میں راقم کا پھر ذکر کیا کہ "مجھے Inspire کرنے والے چند لوگوں میں ذوالفقار چیمہ بھی ہیں۔ " تقریر میں انھوں نے ملک کو تبدیل کرنے اور پولیس کو غیرسیاسی بنانے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔
اس کے کچھ عرصے بعد میری تعیناتی ڈیرہ اسمٰعیل خان کر دی گئی۔ خیبر پختونخوا میں تین سال گزارنے کے بعد مجھے ڈی آئی جی گوجرانوالہ مقرر کیا گیا۔ میری تعیناتی کے دوران ایک بار خان صاحب گوجرانوالہ آئے جہاں انھوں نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ " ساتھی جیسے بھی ہوں اگر لیڈر صحیح ہو تو وہ تبدیلی لا سکتا ہے۔
گوجرانوالہ کی پولیس تو وہی ہے مگر اسے کمانڈر اچھا ملا ہے تو پوری پولیس تبدیل ہوگئی ہے۔ " اگست 2010کے ضمنی الیکشن میں راقم نے پولیس کو غیرجانبدار رکھا اور دھاندلی نہ ہونے دی تو راقم کا تبادلہ کر دیا گیا۔ میری ٹرانسفر کے بعد کئی بار قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے سلسلے میں عمران خان نے ٹی وی ٹاک شوز میں راقم کی تعریف و تحسین کی۔ ایک بار میں اپنے گاؤں میں تھا تو اُن کا فون آیا۔
میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا "خان صاحب! مجھے کسی نے بتایا ہے کہ آپ نے کل بھی ایک چینل پر اچھے الفاظ میں میرا ذکر کیا ہے، آپ کا شکریہ"۔ انھوں نے کہا، "ایک پر نہیں، میں نے پانچ چھ چینلوں پر آپ کا ذکر کیا ہے۔ " اُس دوران کئی دوست کہا کرتے تھے کہ عمران خان آپ کی اتنی قدر اور عزت کرتا ہے تو آپ بھی یقیناً اسے بہت اچھا لیڈر سمجھتے ہونگے۔ جواب دیتا تھا کہ "عمران خان صاحب کا میں مشکور ہوں کہ وہ میرے بارے میں حسنِ ظن رکھتے ہیں، مگر قیادت کے لیے میں صورت کو نہیں سیرت اور کردار کو اہمیت دیتا ہوں، سیاسی قیادت کے حوالے سے میرا معیار محمد علی جناح ؒ ہیں۔
مالی اور اخلاقی طور پر بے داغ، بااصول، مفاد اور مصلحتوں سے بالا۔ ہزارہا چیلنجز کے ہوتے ہوئے بھی ان کی زبان ان کے دل کی رفیق رہی، جو دل میں تھا وہی زبان سے ادا ہوا، اور جو کہا وہ کر کے دکھایا۔
2018 میں جب عمران خان صاحب برسرِاقتدار آئے اُس وقت میں Skill Development کے قومی ادارے NAVTTC کا سربراہ تھا۔ مجھے چونکہ پرانی حکومت نے تعینات کیا تھا اس لیے میں نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ کچھ دوستوں نے پرائم منسٹر سے ملکر استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا لہٰذا میں نے اُن کے ملٹری سیکریٹری کو خط لکھا کہ پرائم منسٹر صاحب سے میری ملاقات کا وقت مقرر کرادیں۔
میرے ذہن میں یہ بھی تھا کہ عمران خان سے آخری ملاقات سترہ سال پہلے ہوئی تھی، وہ اسے بھول چکے ہوں گے۔ ویسے بھی اب وہ ملک کے وزیراعظم ہیں، ممکن ہے ملاقات کے لیے وقت ہی نہ دیں۔ مگر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب دوسرے روز مجھے پی ایم آفس سے اطلاع آگئی کہ کل تین بجے آپ کی وزیراعظم سے ملاقات طے پاگئی ہے، چنانچہ میں وقت پر پی ایم آفس پہنچ گیا۔ کے پی کے گورنر کی ملاقات ختم ہوئی تو ڈپٹی ملٹری سیکریٹری آکر مجھے ساتھ لے گیا۔ جونہی پرائم منسٹر آفس کا دروازہ کھلا عمران خان صاحب سامنے کھڑے تھے۔
انھوں نے بڑی گرمجوشی سے مجھے خوش آمدید کہا اور دفتری میز کی دوسری جانب بٹھانے کے بجائے صوفے کی طرف لے گئے اور صوفے پر بیٹھ کر Relex ہوکر باتیں کرنے لگے، وہ ان دنوں پنجاب کا آئی جی تبدیل کرنا چاہتے تھے اور کسی نئے افسر کی تلاش میں تھے، انھوں نے اس سلسلے میں میرا مشورہ مانگا اور کہا کہ میں کوئی نام تجویز کروں، میں نے فوری طور پر کوئی نام تجویز نہ کیا۔ میں انھیں اسکل ڈوپلیمٹ کی اہمیت کے بارے میں بریف کرتا رہا، سی پیک کے حوالے سے میری تجاویز انھیں بہت پسند آئیں۔
اس کے بعد میں نے کہا "سر! مجھے پچھلی حکومت نے تعینات کیا تھا، ہر حکومت اپنی ٹیم لاتی ہے، نئی حکومت میری جگہ اپنی Choice کا سربراہ مقرر کرلے، اس لیے میں استعفٰی دینے آیا ہوں۔ " اس پر انھوں نے زور دار انداز میں کہا ہرگز نہیں، اور پھر ایک بار رحیم یار خان کے دورے کا ذکر چھیڑتے ہوئے کہا کہ میں تو آپ کا تقریروں میں ذکر کرتا رہا ہوں، مجھے آپ جیسے افسروں کی ضرورت ہے" بہرحال ملاقات خوشگوار انداز میں ختم ہوئی، مگر میں نے دوسرے روز استعفیٰ دے دیا۔ مجھے ان کی قیادت کے بارے میں کیا تحفظات تھے؟ ، کئی لوگ گلہ بھی کرتے تھے کہ اتنا مقبول لیڈر آپ کے بارے میں اتنے اچھے خیالات کا اظہار کرتا رہتا ہے، اس لیے آپ کو بھی reciprocateکرنا چاہیے۔
آپ عمران خان کے حق میں کیوں نہیں لکھتے کہ یہی وہ لیڈر ہے جو ملک کی تقدیر بدلے گا، مگر میرا قلم اس کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس لیے کہ مجھے کبھی بھی یہ خوش فہمی نہیں رہی کہ عمران خان صاحب پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔
میں اپنے بہت قریبی دوستوں سے پوچھتا تھا کہ کیا 35/40 سال تک پلے بوائے کی شہرت رکھنے اور ایک خاص نہج سے زندگی گزارنے والے عالمی سطح کے کسی اسپورٹس مین نے کسی قوم کی تقدیر بدلی ہے؟ تاریخ اس سلسلے میں کوئی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
میں نے خود بھی تحقیق کی اور جدید سیاست کا گہرا ادراک رکھنے والے کئی صاحبانِ علم و دانش سے بھی رہنمائی حاصل کی، ہر طرف سے جواب نا میں ملا۔ طِب اور نفسیات کے ماہرین نے گواہی دی کہ ہر روز ڈھائی سے تین گھنٹے تک سخت ورزش کرنے والے افراد صرف جسمانی اور بدنی کاموں میں ہی کارنامے دکھا سکتے ہیں مگر وہ فیلڈ جن میں ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے، ترجیحات کا تعین کرنے، ملک کی تعمیر و ترقی کے منصوبے بنانے ان پر عملدرآمد کرنے اور مستقبل کی پلاننگ کرنے کی ضرورت ہو وہاں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔
ایسے کھلاڑی یا سلیبریٹی اگر جسمانی حسن اور کشش رکھتے ہوں تو مقبولیت کے اوجِ کمال تک پہنچ سکتے ہیں، اپنیfan following کروڑوں تک لے جاسکتے ہیں مگر قوموں کی تقدیر نہیں سنوار سکتے۔ تقدیر بدلنے والے لوگ اور ہوتے ہیں، وہ لوگ اکثرجسمانی طور پر خوبرو یا پرکشش نہیں ہوتے، وہ کرشماتی شخصیت بھی نہیں رکھتے، ان میں کئی اچھے مقرر بھی نہیں ہوتے مگر اُن میں اخلاص اور نیک نیتی ہوتی ہے۔
ان میں مسائل کا ادراک اور چیلنجوں پر قابو پانے کی استعداد ہوتی ہے۔ آپ دو بڑی جمہوریتوں امریکا اور بھارت کی لیڈر شپ دیکھ لیں، امریکا کے باشندوں نے ہیلری کلنٹن جیسی کرشماتی خاتون کو مسترد کرکے ایک سیاہ فام کی قیادت قبول کرلی، ہندوستان میں عوام نے نہرو خاندان کے پرکشش نوجوانوں کو چھوڑ کر ایک بدصورت شخص کو منتخب کرلیا جو ہندوستان کے نقطہء نظر سے بہت کامیاب وزیراعظم ثابت ہواہے۔
عمران خان صاحب کے پیروکار (جو اب انھیں سیاسی لیڈر کے بجائے روحانی پیشوا کا درجہ دیتے ہیں اور خانصا حب خود بھی اپنے تئیں یہی سمجھتے ہیں) یہی دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہے کہ واہ کپتان کا اسٹائل دیکھیں، کپتان کے بال دیکھیں، ان کی چال دیکھیں، ان کی چپل دیکھیں، وہ ان کی چال اور چپل کے سحر میں مست رہے اور ملک ہر میدان میں تنزلی اور پسپائی کا شکار ہوتا چلا گیا۔ 2018سے پہلے لوگ مجھ سے پوچھتے تھے کیا عمران خان نے کے پی میں واقعی بہترین پولیس بنادی ہے؟ تو میں جواب دیتا تھا کہ"وہاں انھوں نے بلاشبہ آئی جی اور چیف سیکریٹری کو تقرری اور تبادلوں میں بااختیار بنادیا ہے مگر ان کا اصل ٹیسٹ تب ہوگا جب ان کے پاس پنجاب کی حکومت آئیگی۔ "
(جاری ہے)