انتہاپسندی کی یلغار کا خطرہ
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکا کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ جارحیت پسند اور قابض اپنی شکست تسلیم کرکے افغانستان سے نکل جائیں۔ اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ شکست خوردہ غیر ملکی افغانستان چھوڑیں اور بھائیوں کا بھائیوں کے ہاتھوں قتل ختم کریں۔ غیر ملکی اس صورت حال کو مزید خراب کر سکتے ہیں جس سے خونریزی کی نئی لہر آئے گی۔
جواد ظریف نے کہا کہ ہم افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں اور زور دیتے ہیں کہ کوئی بھی امن عمل افغان خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے۔ معصوم شہریوں کا قتل عام روکنے کے لیے ایران افغانستان میں موجود تمام جنگی فریقین کے ساتھ مشاورت اور بات چیت کے عمل کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دور میں افغان طالبان اور ایران کے درمیان تعلقات اس حد تک دشمنی پر مبنی تھے کہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مدمقابل سرحدوں پر آگئی تھیں، لیکن پھر غلط فہمیوں کا یہاں تک خاتمہ ہوا کہ ایران نے افغان طالبان کو ہر طرح کی امداد فراہم کرنا شروع کر دی جس پر امریکی سی آئی اے کے سربراہ نے کئی بار ایران پر شدید تنقید کی۔
ادھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان پر الزام لگاتے ہوئے مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ مذاکرات کے اہم مرحلے میں طالبان نے کابل پر حملہ کیا اگر طالبان فائر بندی پر متفق نہیں ہو سکے تو انھیں مذاکرات کا حق بھی نہیں۔ امریکی صدر نے کہا کہ یہ بات شاید کسی کو بھی معلوم نہیں کہ طالبان کے اہم رہنما اور افغان صدر مجھ سے کیمپ ڈیوڈ میں علیحدہ علیحدہ خفیہ ملاقاتیں کرنے والے تھے لیکن میں یہ ملاقات فوری طور پر منسوخ اور امن مذکرات معطل کرتا ہوں۔
انھوں نے کہا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو سودے بازی کی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ طالبان جنگ بندی نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں بامقصد معاہدے کی صلاحیت نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ دوبارہ مذکرات شروع کرنے کے لیے طالبان کی طرف سے مضبوط یقین دہانی کی ضرورت ہے۔ اگر طالبان امریکا کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں کرتے تو امریکی صدر ان پر دباؤ میں کمی نہیں کریں گے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اہم ترین بات یہ کی کہ امریکی صدر نے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ اب بھی افغانستان سے فوجوں کا انخلاء کریں گے یا نہیں۔ جب کہ طالبان کا سب سے اہم مطالبہ ہی یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلاء ہو۔
ادھر طالبان ترجمان نے کہا کہ معاہدے کے اعلان سے چند روز پہلے کابل میں ایک دھماکے کی بنیاد پر مذاکرات عمل روکنا غیر منطقی ہے۔ ہم نے پہلے بھی مفاہمت کی بات کی تھی اور آج بھی اس موقف پر قائم ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکا بھی دوبارہ مذاکرات کا راستہ اپنائے گا۔ لیکن جب تک افغانستان سے تمام بین الاقوامی افواج کا انخلاء نہیں ہوتا طالبان جنگ جاری رکھیں گے۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ افغانستان میں حقیقی امن اسی وقت ممکن ہے جب طالبان قتل عام بند کر دیں اور افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کے لیے تیار ہوں۔
طالبان سے مذاکرات معطل ہونے سے صرف ایک دن پہلے اسلام آباد میں پاکستان چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کا سہ فریقی اجلاس ہوا۔ بعد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ان تینوں وزرائے خارجہ نے طالبان کی طرف سے حالیہ حملوں اور تشدد کے واقعات کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ افغانستان میں تشدد کی روک تھام اور پائیداد امن کے قیام کے لیے ایسی انٹرا افغان بات چیت شروع کی جائے جس میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ملک کے آیندہ سیاسی ڈھانچے کے لیے مذاکرات ہوں۔
روس کا بھی یہی موقف ہے جب کہ یورپین یونین ہو یا بقیہ عالمی رائے عامہ سب ہی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان نہ صرف مذاکرات بلکہ ایک ٹھوس معاہدے پر اصرار کر رہے ہیں تا کہ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد 1990جیسی صورت حال پیدا نہ ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ لڑنا آسان ہے لیکن امن قائم رکھنا مشکل ترین کام۔ طالبان نہ جنگ بندی پر آمادہ ہیں اور نہ ہی افغان حکومت کے ساتھ مذکرات کرنے پر۔ طالبان طاقت کے زور پر پورے افغانستان پر قبضہ (کنٹرول) کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا عالمی طاقتیں ایسا کرنے کی اجازت دیں گی۔ کیا ماضی کی تاریخ پھر سے دہرائی جائے گی۔ جس میں مجاہدین، مجاہدین کے خلاف جہاد اور پھرطالبان اور مجاہدین ایک دوسرے کے خلاف جہاد کرتے رہے۔ اس قدر افراتفری اور خونریزی ہو گی کہ امریکا سمیت عالمی طاقتیں پھر سے افغانستان کے میدان جنگ میں کود پڑیں گی۔
ضیاء الحق کے دور کی قدامت پرستی آج بھی سرچڑھ کر بول رہی ہے۔ وقت کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان پر طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ جواب یہ ہے کہ مذہبی قدامت پسندی اپنی انتہا پر پہنچ جائے گی۔ ضیاء الحق دور کی قدامت پرست قوتیں آج بھی بہت طاقتور ہیں۔ وہ تمام اداروں میں آج بھی فیصلہ کن اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔ ضیاء الحق دور کی مذہبی شدت پسندی نے آج یہ دن دکھلائے کہ بھارتی ہندوؤں نے (ردعمل کے طور پر) سیکولرازم چھوڑ کر بھارت کو ہندو ریاست بنا دیا ہے۔ نتیجے میں کہ وہاں20 کروڑ سے زائد مسلمان سیاسی اچھوت بن گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم ماضی سے سبق سیکھنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ مذہبی شدت پسندی وہ واحد راستہ ہے جس میں عوام کو جکڑ کر حکمران طبقے اگلی کئی دہائیوں تک پاکستان پر اپنا قبضہ برقرار رکھ سکتے ہیں۔ افغانستان اور خیبر پختونخوا کے ہزاروں سال پرانے قدامت پرست علاقوں سے آنے والے شدت پسندی کے سیلاب میں پنجاب سمیت پورا پاکستان ڈوب جائے گا۔ دہائیوں پہلے اسٹریٹجک گہرائی متعارف کرانے کا مطلب کیا تھا اب تو آپ کو اس کی سمجھ آجانی چاہیے۔
امریکا طالبان کے درمیان مذکرات کب بحال ہوں گے اس کا پتہ اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں چلے گا۔ اس سے پہلے اہم تاریخیں 17-16 تا22-21 ستمبر ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے مزید اہم تاریخیں 20 تا 23 ستمبر ہیں۔