Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Zamurd Naqvi
  3. Aave Ka Aawa Hi Bigra Hua Hai

Aave Ka Aawa Hi Bigra Hua Hai

آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے

چیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ سول ایوی ایشن والے پیسے لے کر جہاز چلانے کا لائسنس دیتے ہیں۔ جعلی لائسنس پر جہاز اڑانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی چلتا پھرتا میزائل ہوا میں اُڑ رہا ہو۔ انھوں نے کہا کہ معیشت بیٹھ چکی ہے حکومت کے پاس کوئی معاشی پلان نہیں۔ بحران کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سے بڑھ کر کوئی بااختیار نہیں۔ سندھ میں 18گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ کیا پنجاب میں کوئی وزیر اعلیٰ اور حکومت ہے۔ ہمیں جہاز حادثے کی حکومتی رپورٹ پر حیرانی ہوئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاز میں کوئی نقص نہیں تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ 15 سال پرانا جہاز اُڑایا گیا۔ رپورٹ میں سارا ملبہ سول ایوی ایشن پر ڈال دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سندھ حکومت ترقیاتی کاموں کے بجائے 4ارب کی لگژری گاڑیاں خرید رہی ہے۔ عوام کے لیے یہ انتہائی اطمینان بخش بات ہے کہ محترم چیف جسٹس صاحب نے پی آئی اے طیارہ حادثے کا از خود نوٹس لیا ہے۔ اب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس حادثے کے ذمے داران اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ چینی، آٹا بحران… اب اس ملک کے عوام پر واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت مافیازکے قبضے میں ہے۔

جب بھی ان کا جی چاہتا ہے کسی بھی شے کو مارکیٹ سے غائب کروا کر اسے مہنگے داموں بیچ کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ حکومت بھی ان مافیاز کے ہاتھوں بے بس ہے۔ اعلیٰ حکومتی عہدیداران بھی اس حقیقت کا چھپے کھلے لفظوں میں اظہار کرتے رہے ہیں۔ تازہ ترین ثبوت پچھلے ایک ماہ سے پٹرول کی قلت ہے۔ حکومت بیان بازی کے علاوہ ابھی تک پٹرول کی سپلائی مکمل طور پر بحال نہیں کر سکی ہے۔ پچھلے کئی مہینوں سے مسلسل یہی دیکھنے میں آرہا ہے کبھی چینی غائب کبھی آٹا تو کبھی پٹرول۔ یہ عوام کی روزمرہ کی ضروریات ہیں۔

ان کی قلت کا مقصد عوام کو سڑکوں پر لانا ہے تو دوسری طرف عوام کا اعتماد حکومت پر ختم ہوتا ہے۔ یہ کہ حکومت کتنی کمزور ہے کہ ان مافیاز کاکچھ بھی بگاڑنہیں سکتی۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یکدم بڑا اضافہ کر دیا گیا۔ یہاں پر بھی حکومت ہار گئی اور منافع خور مافیا پھر جیت گیا۔ مافیا نے سستا پٹرول عوام تک پہنچنے نہیں دیا۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کے حالیہ وائس آف امریکا کو دیے گئے انٹرویو کو حکومت کے خلاف چارج شیٹ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کو پچھلے بائیس مہینوں میں جو کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کر سکی۔

اب اس کے پاس صرف 6 مہینے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی کابینہ اجلاس میں وزیروں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حالات درست نہ کیے گئے تو معاملات دوسری طرف چلے جائیں گے۔ کورونا وباء سے پہلے معیشت کچھ بہتری کی طرف جانا شروع ہو گئی تھی کہ اچانک آسمان سے کورونا وباء کی آفت نازل ہو گئی۔ جس نے معیشت کی رہی سہی جان بھی نکال دی۔ ان تباہ کن حالات سے صرف پاکستانی معیشت نہیں پوری عالمی معیشت دوچار ہے۔ اس وقت بڑے بڑے عالمی معاشی دیو سر پکڑ کر بیٹھے ہیں۔

یہ ایسا عظیم بحران ہے جس کی پچھلے سو سال میں کوئی مثال نہیں۔ عالمی معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ اس کے اثرات دنیا بھر کی معیشتوں پر اگلی کئی دہائیوں تک رہیں گے اور یہ اثرات صرف معیشت سیاست تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس سے پورا عالمی سماج متاثر ہو گا۔ انسانی نفسیات سوچ انسانوں کے درمیان رشتے اور تعلقات سب متاثر ہوں گے۔ آئی ایم ایف کے مطابق موجودہ مالی سال میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح منفی 0.42 فیصد جب کہ بھارت کی معاشی ترقی کی شرح نمو پاکستان سے کہیں کم منفی 4.5 ظاہر کی گئی ہے جب کہ سعودی عرب کی معاشی ترقی کی شرح نمو منفی 6.8 فیصد تک گرسکتی ہے۔

تو بات پی آئی اے حادثہ رپورٹ کی ہو رہی تھی اس حوالے سے وفاقی وزیر ہوا بازی نے یہ ہولناک انکشاف کیا کہ 262 پائلٹ نے پائلٹ کے لیے ہونے والے امتحانات خود نہیں دیے۔ بلکہ ان کی جگہ کسی اور نے امتحانات دیے۔ یوں 40 فیصد پائلٹ کے لائسنس جعلی ہیں۔ اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو گی کہ پائلٹ کو جعلی لائسنس بنوا کر دیے گئے۔

انھوں نے کہا کہ 72 برسوں میں 12واقعات ہوئے ہیں یا بقیہ تمام حادثات کی بروقت انکوائری نہیں ہوئی نہ رپورٹ سامنے آئی۔ یہ ہے پاکستان کی تمام حکومتوں کی گڈگورننس کی اعلیٰ مثال۔ نہ حقائق عوام تک پہنچے بلکہ حقائق کو عوام سے چھپایا گیا۔ بھانجوں، بھتیجوں کو نوازا جاتا رہا۔ موجودہ سی ای او نے 600 پائلٹس کی ڈگریاں چیک کروانے کی کوشش کی تو اسٹے آرڈر لے لیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ جعلی ڈگری کی بناء پر پی آئی اے پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔

ایک وقت تھا کہ ڈاکٹروں کی جعلی ڈگریوں کا انکشاف ہوا۔ دوسروں کی جگہ امتحانات دینے کا کلچر کب شروع ہوا۔ ذرا غور کریں توآپ کو یاد آجائے گا کہ اس کا آغاز 1980 کی دہائی سے ہوا جب پورے پورے امتحانی سینٹر بکتے تھے۔ ان کی بولی لگتی تھی۔

وزیر اعظم عمران خان اور جمہوریت کا مستقبل کیا ہے، اس کا پتہ اگست ستمبر سے لگنا شروع ہو جائے گا۔

سیل فون:0346-4527997

Check Also

Ye Roshni Fareb Hai

By Farhat Abbas Shah