حکمران کا ندیم خاص
ان دنوں ذاتی گفتگو میں اور سوشل میڈیا میں ان لوگوں کا بہت چرچا ہے جو ہمارے حکمران کے ندیمِ خاص ہیں۔ ایسے خاص الخاص ندیم ہر دور میں ہوتے ہیں لیکن آج کل وہ ٹکے سیر مل رہے ہیں۔ ان کی باتیں سنیے تو یقین نہیں آتا کہ وہ اپنے آقا کو کس طرح عرشِ معلی پر جا بٹھاتے ہیں اور اگر وہ ٹھوکر کھا جائے تو پھر یہ وہاں سے کیسے فرار ہوتے ہیں۔
ان ہی افراد کو دیکھ کر ایران کا ایک معروف ادیب محسن دامادی یاد آتا ہے۔ اس نے اپنی کہانی میں ایک ایسے شخص کا قصہ بیان کیا ہے جو جدی پشتی دربای ہے، اسے وہ آقائے ماضی کے نام سے یاد کرتا ہے۔ یہ شخص خوابوں کے نرغے میں ہے اور ایک ایسی اذیت ناک موت مر رہا ہے جو بقول اس کے خدا کسی بندے کو نصیب نہ کرے۔
وہ ایک برس تک اس عذاب میں گرفتار رہتا ہے اور پھر جب محلے والے، گھر والے، جاننے والے سب ہی اسے پاگل کہنے لگتے ہیں تو وہ مجبور ہوتا ہے کہ ایک نامی گرامی ماہر نفسیات سے رجوع کرے۔ وہ اسے اپنے خواب سناتا ہے۔ خواب سنانے سے پہلے وہ ماہر نفسیات کو یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کے اجداد پشت در پشت ایران کے درباروں میں بڑے مقام اور مرتبے کے حامل تھے۔ وہ کہتاہے کہ میں بادشاہ سلامت کے ندیموں میں ہوا کرتا تھا۔ ایسا ندیم کہ ان کے پہلو بہ پہلو بیٹھتا تھا۔
بادشاہ سلامت کے بارے میں بھی بتادوں۔ وہ زر سرخ کے بڑے تخت پر جلوہ افروز ہوتے تھے۔ جس کے دونوں طلائی زینے ہیرے موتیوں سے آراستہ تھے۔ دیبائے رومی کے گائو تکیوں سے ٹیک لگائے، الماس، زمرد اور فیروز کی انگشتریوں سے مزین دست مبارک زانو پر دھرے، میں نے بادشاہ سلامت کو دیکھا کہ بڑا بھاری مطلا تاج، طائران ہند کے پروں سے سجا ہوا، ان کے سر پر تھا۔ چار حبشی غلام نیچے سے تاج کو روکے ہوئے تھے۔
مجھے اس خیال سے وحشت ہونے لگی کہ اگر کہیں ایک بھی غلام کا ہاتھ ڈھیلا ہوجائے تو یہ زبردست تاج گردن شاہانہ کو شکستہ کردے گا۔ ظاہر ہے کہ میری پریشانی فضول تھی۔ اس لیے کہ یہ غلام قلمچاق کے بردوں میں سے چھانٹ کر لائے گئے تھے۔ پھر بھی چوں کہ میر اعقیدہ ہے کہ ہمیشہ احتیاط کے تقاضوں کو نظر میں رکھنا چاہیے اس لیے میں نے بادشاہ سلامت پر اپنا اندیشہ ظاہرکردیا اور وہ میری دانائی اور دور اندیشی سے اس قدر خوش ہوئے کہ انھوں نے خود مجھ کو غلاموں کی جماعت میں شمولیت کا حکم دے دیا۔
زیادہ تر خوابوں میں بادشاہ سلامت مجھے یوں نظر آتے تھے کہ ان کی غضب ناک نگاہوں کے آگے کرہ ارض کا نقشہ پھیلا ہوا ہے۔ ان کی نازنین انگلی، وہ والی جس میں فیروزے کی انگوٹھی تھی فضا میں چکرکاٹ رہی ہوتی تھی۔ ایک چکر، دوچکر اور پھر نیزے کی طرح نیچے جھکتی، نقشے کا جو حصہ زیر انگشت مبارک آجاتا اس کو ہمارے وطن عزیز کی بے مثال زرخیز مٹی میں مل جانا ہوتا تھا۔ اس وقت بادشاہ سلامت خاصے پر تشریف فرما ہوتے تھے۔
ندیم خدمت میں مصروف رہتے اور مطرب گانے بجانے میں اور دور شراب چل رہا ہوتا تھا۔ تین شبانہ روز تک ہم بادہ نوشی کرتے رہتے۔ ڈھائی من شراب کے صرف کے بعد مزاج مبارک بحال اور طبیعت خُرسند ہوتی تب وہ گونجتی ہوئی آواز میں کوچ کا حکم د یتے۔ فراش سلطان جامے حاضر کرتے، بادشاہ سلامت لباس جنگی زیب تن فرماتے: کلاہ اور خود اور زرہ اور خفتان، ایک سرخ پارچہ قہرو جلال کے اظہار میں کندھوں پر پڑا ہوا۔
حملے کی صورتیں اور دوسرے امور جنگ طے کرنے کے لیے ہم بڑے قلعے کو روانہ ہوجاتے۔ تین سو فیلان ہندی پرکسے ہوئے تین سو ہودجوں میں ہزارہا پری چہرہ مہ لقائیں بھی حاضر رہتیں۔ میں اپنی دیبائے لعل اور قبائے زر اتار کر لباس جنگ پہنتا اور خاصہ خانے سے جہاں ہر طرف مشک و عنبر کی لپٹیں ہوتیں، باہرآتا۔ آپ اندازہ نہیں کرسکتے ڈاکٹر صاحب اس وقت میں کیسے جوش وجلال میں رہتا تھا۔ تب میں اپنے برق سیر نقرہ گھوڑے پر سوار ہوتا اور بجلی کی سرعت سے یوں حملہ کرتا کہ غبارکے بادل زمین و زماں پر چھا جاتے۔
پھر وہ ماہر نفسیات کو بتاتا ہے کہ اس کے خواب جوہمیشہ فتح اور فیروز مندی پر ختم ہوتے تھے، ان میں شکست اور زوال کے احوال سر اٹھانے لگے۔ ایک زمانہ تھا کہ اسے اپنے خوابوں سے لذت ملتی تھی، لیکن پھر وہ اس کے لیے عذاب بن گئے۔ وہ رات سے گھبرانے لگا۔ لیکن رات آتی تو وہ مجبور ہوتا کہ وہ اپنے بستر بلکہ اپنی عارضی قبر پر جالیٹے اور دہشت ناک خوابوں کا عذاب جھیلتا رہے۔
رات گزرتی اوردن آتا تو وہ اپنے قریبی ساتھیوں کو عفریت اور اخوان الشیاطین سمجھ کر ان پر ٹوٹ پڑتا، انھیں اپنے اذیت ناک خوابوں کے کردار سمجھتا اور اپنے ساتھیوں اور اپنے قریبی لوگوں کے ہاتھوں زدوکوب کے عذاب ناک مرحلے سے گزرتا۔ آخرکار وہ خانہ نشیں ہوگیا۔ اپنے کمرے سے نکلنا اس کے لیے دوبھر ہوگیا۔ پھر بھی ان خوابوں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔
وہ گریہ ناک لہجے میں ماہر نفسیات کو اپنی بپتا سناتے ہوئے کہتا ہے کہ "خدا آپ کو یہ خواب کبھی نہ دکھائے۔ میں دیکھتا ہوں کہ بھاری بازوئوں اور بڑی سی توند والا جلاد چہرے پر سرخ ڈھاٹا باندھے جس میں اس کی خون آلود آنکھیں جھانکتی ہیں۔ چوڑے پھل کا تیغہ تھامے میری سمت بڑھتا ہے۔ اس سے منت وزاری بے سود ہے، کوئی نہیں جو مجھ اجل گرفتہ کی فریاد سنے اور پھر جیسے ہی تیغہ مجھ پر پڑتا ہے میں ہمیشہ کی طرح ہائے واویلا کرتا ہوا جاگ جاتا ہوں۔"
وہ شخص جو حکمران وقت کا ندیم خاص تھا۔ آخر میں ایک خواب دیکھتا ہے اس خواب کی تفصیل وہ یوں بیان کرتا ہے کہ "میں کسی ان دیکھے فوجی دستے سے بھاگ رہا تھا جو میرے تعاقب میں تھا۔ آخرکار جب آوازیں بالکل ہی سر پرآگئیں اور بھاگنے میں کوئی فائدہ نظر نہ آیا تو میں نے سوچا کہ کم از کم پشت پر تو زخم نہ کھائو اس لیے موت سے کھیلنے پر تیار ہوکر میں مڑ پڑا۔ جناب ڈاکٹر صاحب اللہ آپ کو روز بد نہ دکھائے، میرا پیچھا کرنیوالی جماعت اصل میں بہت سی کتابیں تھیں جن کے ہاتھ پیر نکل آئے تھے۔
واے برحال من! میں چلا اٹھا، میں نے نعرہ مارا، پھر میں چیخا اور پھر چیخا اور افسوس یہ سب ہنگامہ میں نے کسی قلعے میں نہیں اپنے بستر پر مچایا تھا اور ایک بار پھر اپنے ہمسایوں کو جگا دیا تھا۔ اب آپ کی خدمت میں حاضرہوا ہوں۔ آپ کو اپنے پیاروں کی قسم مجھے بچا لیجیے۔ آپ پچاس گولیاں روز کھلایے، ایک ایک دن میں سو سو انجکشن لگایے، مجھے سب منظور ہے۔ بس یہ خواب میرا پیچھا چھوڑ دیں۔"
کچھ دن بعد اخبار پڑھتے ہوئے ماہر نفسیات نے حادثات کے کالم میں یہ خبر دیکھی: مشہور محقق آقائے ماضی نے خود کشی کر لی۔ انھوں نے ایک تحریر چھوڑی ہے جس میں لکھا ہے ڈاکٹر نے کہا کہ: میرے دوست دو ہی راستے رہ گئے ہیں یا آیندہ کا خیر مقدم کیجیے یا حال کو بھی الوداع کہیے، سو میں نے دوسرا راستہ چن لیا۔
ایران کے اس محقق آقائے ماضی نے خود کشی کر لی اور ایک آبرومندانہ فیصلہ کیا لیکن ہمارے یہاں گزشتہ چوہتر برس میں کیسے کیسے ندیمِ خاص گزرے ہیں، ان میں سے کسی نے بھی ایران کے آقائے ماضی جیساآبرومندانہ فیصلہ نہیں کیا اور وہ فوراً دوسرے دربار، دوسری سرکار سے وابستہ ہوگئے۔ یقین نہیں آئے تو آج کے اور سالہا سال پرانے اخبارات کا مطالعہ کرلیجیے۔