ویلنٹائن ڈے کا شغل
مسلمان دیگر مغربی تہواروں کی طرح ویلنٹائن کو بھی مذہبی تہوار سمجھ کر نہیں مناتے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ویلنٹائن ڈے آخر مناتے کیوں ہیں۔ تو اس کا سادہ جواب ہے کہ "پتہ نہیں، بس مناتے ہیں۔" مسلمان خاص طور پر پاکستانی قوم "کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا" کے مصداق جدھر میڈیا لگا دے، بھیڑ بکریوں کی طرح منہ اٹھائے ادھر کو چل دیتی ہے۔ ویلنٹائن ڈے منانے والے کافر نہیں ہو جاتے اور نہ ہی ان کے اس شغل کا تعلق ان کے مذہب یا عقیدے سے ہے، کسی شغل کو بطور شغل منانا انہیں اچھا لگتا ہے۔
پاکستان میں کسی شہری سے پوچھ لیں، اسے اس تہوار کا پس منظر معلوم نہیں ہوگا، فقط اتنا جانتا ہے کہ آج اظہار محبت کا دن ہے اور سرخ رنگ کے پھولوں اور تحائف کا تبادلہ اس تہوار کی خاص علامت ہیں۔ جہاں تک ہماری یادداشت کام کرتی ہے، پاکستان میں نجی میڈیا کے ظہور سے پہلے یہ قوم ویلنٹائن ڈے سے لاعلم تھی، میڈیا کی مہربانی سے یہ قوم ماشاء اللہ "تعلیم یافتہ" ہو گئی ہے۔ بھارت اور پاکستان تہذیب اور ثقافت کے اعتبار سے عجیب الجھن کا شکار ہیں کیوں کہ مغربی ثقافت نے برصغیر کے باشندوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
بھارت ویمن ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ کی صدر معراج خان نے گورنر آندھرا پردیش کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں درخواست کی کہ وہ حکومت اور بالخصوص محکمہ پولیس کو ویلنٹائن ڈے پر غیر تہذیبی اور غیر اخلاقی تقریبات اور حرکات کو روکنے کے سلسلے میں بندوبست کرے۔ بھارت جیسے سیکولر ملک میں جس کے بالی ووڈ نے اکستان میں بھی آگ لگا رکھی ہے، بے حیائی کی روک تھام کے کا بندوبست کی درخواست اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کے لوگ بھی اپنی تہذیب کو دفن ہونے سے بچانا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان دنیا میں کہیں آباد ہوں اپنی نوجوان نسلوں کو بے راہ روی سے دور رکھنے کی سعی کر تے ہیں۔
بحث یہ نہیں کہ ویلنٹائن ڈے منانا حرام ہے یا ناجائز، مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی اپنی بھی کوئی تہذیب و ثقافت ہے یا نہیں؟ ویلنٹائن ڈے کی مسرتوں میں شامل ہونے کے لئے نوجوان محبت کرنے والے اور والیاں تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ موبائل فون، ایس ایم ایس اور انٹر نیٹ نے یہ تلاش آسان اور سستی بنا دی ہے۔ محبت کاپیغام عام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عوام خوشیوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں لہٰذا ویلنٹائن ڈے جیسے تہوار محرومیوں میں شفا کا کام دیتے ہیں۔
پہلے زمانوں میں اظہار محبت نہیں ہوتا تھا مگر محبت تھی، زمانہ جدید میں اظہار محبت ہے مگر محبت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ پال ویلنٹائن ایک رومن پادری اور اس کی محبوبہ کو غیر اخلاقی و غیر قانونی فعل پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جب سے اب تک ان کی یاد میں پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ پادری کی کہانی تو ماضی ہوگئی البتہ اس تہوار کو محبت کی علامت قرا دے دیا گیا۔ ویلنٹائن ڈے کو اگر صرف اظہار محبت تک محدود رکھا جائے تو اس کے اظہار کی سب سے زیادہ ضرورت بیوی کو ہے۔
مشرقی شوہر اپنی بیوی سے اظہار محبت میں بخیل پایا گیا ہے۔ بھلا ہو اس عاشق پادری ویلنٹائن کا اس نے مشرقی شوہر کو اظہار محبت کا جواز پیش کر دیا۔ بیوی کو دنیاکی تمام آسائشیں مہیا کر دو مگر جب تک شوہر زبان سے اس کی تعریف نہ کرے، اسے سکون نہیں ملتا، اس کے باوجود پاکستانی شوہر دنیا کا بہترین شوہر مشہور ہے۔ میاں بیوی میں اظہار محبت اللہ تعالیٰ کو پسند ہے مگر ویلنٹائن کی وبا سے غیر شادی شدہ طبقہ زیادہ متاثر ہوا ہے۔ پاکستان کے شرفاء ویلنٹائن ڈے منانے کے پس پشت نوجوان نسل کی غیر اخلاقی حرکات سے پریشان ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کی علامت سرخ رنگ ہے، لہو کا رنگ بھی سرخ ہے۔ سانحات نے پاکستان میں صف ماتم بچھا رکھی ہے، لہو میں نہائی یہ ویلنٹائن اظہار محبت ہے یا محبت کا شغل۔۔؟ 2017ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت صدیقی نے عوامی سطح پر ویلنٹائن ڈے کی تقریبات کو مسلم ثقافت کے منافی قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کر دی تھی۔ کیونکہ پاکستانی معاشرے میں ویلنٹائن ڈے کو گزشتہ چند برسوں کے دوران کافی مقبولیت حاصل ہوئی ہے جو مغربی ثقافتی یلغار کی ایک بدترین مثال ہے۔
اس کی وجہ سے معاشرے میں بے حیائی و فحاشی خطرناک حد تک بڑھنا شروع ہوچکی ہے۔ اس لئے عدالت نے ویلنٹائن ڈے کی تقریبات کی کوریج پر پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن کہیں چوری چھپے اور کہیں کھل کھلا کر یہ تہوار منانے کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔