Aalmi Siasat 2024, Tanz o Mazah Ko Roshni Mein
عالمی سیاست 2024، طنز و مزاح کی روشنی میں
دنیا کی سیاست ایک ایسا کھیل ہے جہاں سب ہی اداکار ہیں، لیکن ہدایتکار کا پتا نہیں۔ 2024 کا منظرنامہ، خاص طور پر، ایک مزاحیہ فلم جیسا لگتا ہے جس میں ہر کوئی اپنا ہی کردار نبھا رہا ہے، کسی کو اس بات کی پروا نہیں کہ کہانی کہاں جا رہی ہے۔ قرضوں میں ڈوبی معیشتیں، قوم پرستی کی آگ، سیاسی اتحادوں کی کھچڑی اور سب سے بڑھ کر، عوام کی مکمل بے بسی۔
امریکہ، جو کبھی دنیا کے سیاسی اسٹیج پر سب سے طاقتور کردار تھا، آج اپنی اندرونی لڑائیوں میں الجھا ہوا ہے۔ صدارتی انتخاب کے لیے جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔ بائیڈن اپنی معمر قیادت کو تجربے کا نام دے رہے ہیں، جبکہ ٹرمپ "میگا امریکہ" کے نعرے کے ساتھ ہر مسئلے کا الزام دوسروں پر ڈالنے میں مصروف ہیں۔ عوام کے لیے یہ انتخاب ایک بار پھر ایسے ہے جیسے برگر کے مینو میں صرف دو ہی آپشن ہوں، لیکن دونوں ہی خراب ہوں۔
یورپ میں صورتحال اس سے زیادہ مختلف نہیں۔ فرانس میں مارین لی پین کا خواب تھا کہ وہ ایک مضبوط حکومت تشکیل دیں گی، لیکن پارلیمنٹ کی تقسیم نے ان کے منصوبے خاک میں ملا دیے۔ برطانیہ میں "بریگزٹ" کا مزہ لینے والے اب یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ یہ مزہ تھا یا سزا۔ آئرلینڈ کے مسئلے سے لے کر معیشت کی گرتی ہوئی صورتحال تک، برطانیہ کا حال ایسا ہے جیسے کوئی گاڑی پہاڑی سے نیچے جا رہی ہو اور بریکس نہ ہوں۔
پاکستان، جی ہاں، ہمارا اپنا ملک، بھی کسی سیاسی ڈرامے سے کم نہیں۔ یہاں سیاست دانوں کی چالاکی، عوام کی بے بسی، اور اداروں کی خاموشی مل کر ایک ایسا منظر پیش کرتی ہیں جو طنز کے قابل ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات، عدالتوں کے فیصلے اور روزانہ کے سیاسی بیانات نے عوام کو اس قدر الجھا دیا ہے کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ سیاست دان اپنے جلسوں میں وعدے کرتے ہیں، لیکن ان وعدوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
ادھر بھارت میں مودی کی تیسری بار کامیابی نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا، لیکن ان کی پارٹی کی اکثریت ختم ہو چکی ہے۔ یہ وہی بھارت ہے جہاں معیشت کے مسائل، کسانوں کے احتجاج اور اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت سب کچھ معمول بن چکا ہے۔ تائیوان اور چین کے تعلقات بھی کسی جذباتی ڈرامے کی طرح ہیں، جہاں دونوں طرف سے بیانات آتے ہیں، لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔
افریقہ کی سیاست میں ایک نیا باب کھلا ہے جہاں جنوبی افریقہ میں حکمراں جماعت نے اپنی اکثریت کھو دی۔ ان کا مخالف جماعت کے ساتھ اتحاد ایسا ہے جیسے دو دشمن ایک ہی کشتی میں بیٹھے ہوں، اور کشتی میں سوراخ بھی ہو۔
دنیا کی سیاست کا یہ منظرنامہ بتاتا ہے کہ مسائل زیادہ ہیں اور حل کم۔ قرضوں میں ڈوبی معیشتیں، بڑھتی ہوئی قوم پرستی اور سیاسی اتحادوں کی ناکامی نے عوام کو مایوس کر دیا ہے اور یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب دنیا کو ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، اور امن کے بحران جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
آخر میں سوال یہ ہے کہ کیا سیاست دان کبھی عوام کے لیے کچھ کریں گے؟ یا یہ ڈرامہ یونہی چلتا رہے گا؟ جواب شاید کسی کے پاس نہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ 2024 کا سیاسی منظرنامہ طنز کے لیے کافی مواد فراہم کر رہا ہے۔ 2025 میں کیا ہوگا؟ شاید وہی جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے: نئے وعدے، پرانی کہانیاں، اور مزید انتشار۔ دنیا کا یہ سرکس جاری رہے گا، اور ہم سب، چاہے چاہیں یا نہ چاہیں، اس کے تماشائی ہیں۔