Thursday, 05 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Jaane Wale Yahan Ke Thay Hi Nahi

Jaane Wale Yahan Ke Thay Hi Nahi

جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

میں جب کبھی ٹور سے واپس آتا ہوں تو ایک دن جو چھٹی والا دن ہوتا ہے بیگم بچے ٹی وی سکرین پر میری تصاویر دیکھتے ہیں اور ہر تصویر کی لوکیشن اور اس کے پیچھے کی کہانی شوق سے سنتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی تصویر کے پیچھے کی ایڈونچر داستان کو سن کر مجھے کہتے ہیں کہ آپ کو احتیاط برتنا چاہئیے تھی۔ حالانکہ مجھے نارمل محسوس ہو رہا ہوتا ہے۔ مجھے دراصل خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ بچوں کو جگہوں کی معلومات اور وہاں کے لوگوں کے بارے جاننے میں دلچسپی ہوتی ہے۔ بیگم البتہ یہی کہتی ہے کہ آپ فلاں فلاں تصاویر کو پرنٹ کروا لیں۔ پرنٹ کروا لوں تو وہ گھر آئے گئے مہمانوں کو گفٹ کر دیتی ہے یا کوئی مہمان خود ہی فرمائش کرکے لے لیتا ہے۔

میرے ساتھ جو مقامی لوگ ہمسفر رہے ہیں یا بیرون ممالک میں بستے دوست ساتھ رہے ہیں وہ اس بات کو جانتے ہیں اور مجھ پر حیران ہوتے ہیں کہ دوران سفر کیمرا بند پڑا رہتا ہے۔ کبھی کبھی کئی دن ایک بھی تصویر نہیں لیتا اور مسلسل سفر ہوتا رہتا ہے اور پھر اچانک کوئی منظر ایسا کھلتا ہے کہ وہیں گاڑی رکوا لیتا ہوں اور فوٹوگرافی کرتا رہتا ہوں۔ کبھی ایک زمانہ تھا جب راہ چلتے جگہ جگہ شٹر بٹن دباتا رہتا تھا۔ ایسا زمانہ ہر فوٹوگرافر پر بیتتا ہے۔ اب یوں ہے کہ تصویر کے لیے لائٹ، کمپوزیشن اور موڈ کا خیال آتا ہے۔ اگر دل مان رہا ہے تو تب ہی کیمرا نکلے گا اور دل نہیں تو کئی کئی دن کیمرا بیگ کا بوجھ کمر پر ڈھوتا رہتا ہوں۔

وہ کیا شعر یاد آ گیا

ہر حُسن سادہ لوح نہ دل میں اُتر سکا

کچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوں

اب فطری حُسن بھی تب متاثر کرتا ہے جب وہ دل پر وار کرے۔ تصویر سب سے پہلے ذہن کے پردے پر اُترتی ہے۔ فریم آنکھوں کے سامنے ترتیب پاتا ہے۔ پھر جا کر انسان کیمرے میں اسے اتارنے کی کوشش کرتا ہے۔ حُسن دو طرح کا ہی متاثر کرتا ہے۔ یا آگ میں جلتا ہوا، یا برف میں سویا ہوا۔ یعنی یا تو فطرت میں گہماگہمی کا سماں ہو یا پھر منظر اداس ہو۔ اس کے بیچ کچھ نہیں۔

میرے کمرے کی دیواروں پر میری تصویریں لگی ہیں جو پچھلے سترہ سالوں سے میرے جنون کی عکاس ہیں۔ میں جب کمرے میں ان کے بیچ کھڑا اپنے آپ کو دیکھتا ہوں تو گزرے ہوئے ماہ و سال، سفر میں بیتے لمحے، جلتی دوپہریں، ٹھنڈی شامیں، سُلگتی راتیں، چاند کی وارداتیں، بچوں کی ہنسی سب ایک ٹائم لیپس فلم کی صورت میرے ذہن کے پردے پر چلنے لگتے ہیں۔ کبھی کبھی تو تصویریں سچ میں باتیں کرنے لگتی ہیں اور کہتی ہیں تم نے ہمیں قید کیا ہمیں اس فریم سے رہائی دو اور خود بھی ہماری یادوں سے آزادی پاؤ۔

مجھے وہ منتر بھول گیا ہے جس کو پڑھ کر میں ان منظروں اور مجسم لوگوں کو رہا کر سکتا۔ میرے خدا نے مجھے صرف قید کرنا سکھایا تھا۔ میرے لیئے یہ بھی دل پر بھاری پتھر ہے کہ روز دکھ سکھ کے دنوں کو خیال میں لا کر اداس ہو جاؤں۔ ایک نگر کی بچی کی ہنستی تصویر ہے جس کی آنکھوں کی پُتلیوں سے اس باغ کا عکس نظر آتا ہے جہاں وہ کھڑی تھی، جو کہتی ہے کہ آؤ ہمارے ساتھ کھیلو اور میں نمزدہ آنکھوں سے جواب دیتا ہوں کہ کھیلنے کی عمر تو اب خواب ہوگئی۔ "اب تو نہ جنوں ہے نہ سکوں ہے یوں ہے"۔۔

بدلتے موسموں کی دلداری اور بیتے شب و روز کی دل آزاری دونوں پر یقین کرنے کے لئے کبھی کبھی بھولی بسری یادوں کو چھُو لینا بھی اچھا ہے۔ میرے پاس ایک یہ حیلہ بھی تو ہے کہ لوگ میری ذاتی زندگی کے بارے بھی پوچھتے ہی رہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے میں بڑی باقاعدگی سے ڈائیری لکھتا تھا۔ لمحوں کی انگلی تھام کر چلتا اور لفظوں میں سانس لیتا۔ جذبوں کو پہچاننا ابھی نہیں سیکھا تھا مگر ہاں جو وہ روز و شب جو میرے اندر ہی طلوع و غروب ہوتے ان کا حساب درج کرتا جاتا۔

سید قبیلے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے میرے آنگن میں تب اذانوں کے اجالے تھے، دعاؤں کے سویرے تھے مگر طاقوں میں روایات کے بُت بھی سجے ہوئے تھے جو ہر چیز سے برتر تھے۔ اصول تھے ایسے کہ جن کو توڑنا خدا کے حکم کو جھُٹلانے جیسا تھا۔ زمین تھی مگر خاندانی جھمیلوں کی وجہ سے نسل در نسل مقدمہ بازی میں منتقل ہوتی چلی گئی اور پھر ابا مرحوم سب کچھ تیاگ کر گاؤں چھوڑ شہر آن بسے۔ میں پہلا باغی تھا جس نے اپنے قبیلے کے فرسودہ رواجوں پر پتھر پھینکا اور پھر مجھے دربدر ہونا پڑا۔ پاؤں میں سفر کے بھنور پڑے تو ہاتھ میں کیمرا بھی آ گیا۔

تصاویر کا ڈھیر لگتا رہا۔ اتنا ڈیٹا جمع ہو چکا کہ میں خود سارا نہیں دیکھ پایا۔ وقت کہاں نکلتا ہے۔ شب و روز کو کاوشِ روزگار چاٹ جاتا ہے۔ برائے شوق سفر میں تصاویر لیتا رہتا ہوں اور پھر جب کبھی ان کو دیکھوں تو دل اداس سا ہو جاتا ہے۔ وہ بیتے لمحے، بسرے شب و روز اور سفر میں ملے لوگ دھیان میں زندہ ہو جاتے ہیں۔ ان جنگلوں، وادیوں، شہروں، گلیوں اور صحراؤں سے کب کا نکل چکا جہاں میرے قدم پڑے تھے۔ مجھے یقین ہے جیسی اداسی مجھے گھیر لیتی ہے ویسی ہی ان پر بھی اُترتی ہوگی۔ شاید۔۔

ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
بے اماں تھے، اماں کے تھے ہی نہیں

اس گلی نے یہ سن کر صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

Check Also

Zehni Ghulam, Dolay Shah Ke Choohe Aur Likhari

By Mubashir Aziz