پاک سعودیہ تعلقات میں اہم موڑ
ابرہہ نے یمن سے ایک لشکر لے کر مکہ پر حملہ کیا۔ ابرہہ کے گماشتے قریش کے اونٹ چوری کرکے لے گئے۔ حضرت عبدالمطلب اور ابرہہ کے درمیان ملاقات ہوئی۔ عبدالمطلب نے صرف اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ابرہہ نے کہا:"میں نے گمان کیا کہ آپ کعبہ کے بارے میں گفتگو کرنے آئے ہو۔ عبدالمطلب نے کہا:"میں اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا اور مالک ہے جس کی وہ خود حفاظت کرے گا۔" امت مسلمہ کے لئے اس تاریخی جملے میں مکمل فلسفہ پنہاں ہے۔ مکہ مدینہ کا رب محافظ ہے، مسلم اْمّہ کو اپنے اتحاد اپنے گھر کی حفاظت کی فکر ہونی چاہئے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ بھائی بھائی کا مددگار اور معاون بنایا گیا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں مسلمان بھائی ظلم و زیادتی کا شکار ہو اس کی مدد اور حمایت تمام مسلم ممالک پر فرض ہو جاتی ہے۔ مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ فلسطین برما یادنیا بھر میں مسلمانوں کے سنگین مسائل، سعودی عرب کو اپنا قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔
پاکستان کو جب بھی معاشی امداد کی ضرورت پیش آئی، پاکستان نے سعودیہ کی طرف دیکھا اورایسا ستر سالوں سے ہورہا ہے۔ پاکستان کو سب سے زیادہ زرمبادلہ سعودی عرب کے اوورسیز پاکستانیوں سے موصول ہوتا ہے بظاہر پاکستان سعودیہ کے بغیر معاشی طور پر کمزور ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے پیچھے اب چین کھڑا ہے۔ دنیا کی سیاست میں اب ایک نیا بلاک بننے جا رہا ہے، جس میں چین، روس، ترکی، پاکستان، ایران، بنگلہ دیش شامل ہوں گے۔ چین کے لیے پاکستان اور اس کے اندر سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔ سپر پاور بننے کے لئے چین کے لئے پاکستان ناگزیر ہو چکا ہے۔ امریکہ اور چین تو اب کھل کر آمنے سامنے آرہے ہیں۔ امریکہ چین کی مصنوعات پر آہستہ آہستہ پابندی لگانا شروع کررہا ہے۔ پاکستان کو چین کے بلاک میں جانے سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ پاک سعودیہ تعلقات کی تاریخ پرانی اور پختہ چلی آ رہی تھی۔ پاکستان اور سعودی عرب میں دوستی کا پہلا معاہدہ شاہ ابن سعود کے زمانے میں 1951ء میں ہوا تھا۔
شاہ فیصل کے دور میں ان تعلقات کو بہت فروغ ملا۔ سعودی عرب ان چند ممالک میں ہے جنہوں نے سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیرمیں پاکستان کے موقف کی کھل کر تائید کی۔ ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔ اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان میں فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔
اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب میں مالی امداد فراہم کی اور دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔ پاک سعودیہ تعلقات کی ایک تاریخی اور مذہبی حیثیت ہے۔ پاکستان کے 26 لاکھ شہری سعودی عرب میں ملازمت کر رہے ہیں۔ حج عمرہ کی بڑی تعداد پاکستانی زائرین کی ہے۔ سعودی عرب نے اپنے حریف ممالک سے لڑائی کے وقت جب بھی پاکستان کو مدد کے لئے پکارا، پاک فوج نے دنیا کی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر سعودی عرب کا ساتھ دیا۔