2021 بھی وائرس زدہ سال
کون کہتا ہے انیس بیس میں فرق نہیں، کرونا وائرس کی دہشت سے پوچھو 2019ء اور 2020ء میں کتنا فرق ہے۔ 2020 کرونا کا سال تھا، دہشت بیماری موت کا سال تھا اور 2021 بھی کرونا کا ہی سال ہو گا البتہ دنیا نے اب کرونا کے ساتھ جینے پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔ ویکسین کی امید نے 2021 کو پر امید سال بنا دیا تھا مگر ایک اور وائرس کی خبر نے امید پر پانی پھیر دیا ہے۔ پوری صدی میں یہ نہیں ہواکہ بیک وقت برطانیہ سے 40 ممالک سے زائدممالک نے ناطہ توڑ لیا ہو اورہرقسم کی سفری پابندیاں عائدکردی گئی ہیں جس میں پاکستان، انڈیاکے علاوہ چھوٹے چھوٹے افریقی ممالک نے بھی گوروں کاداخلہ بندکردیاہے لیکن اس قدراحتیاط کے باوجود برطانیہ میں مرنے والوں کی تعدادمیں ڈرامائی اندازمیں دن بدن اضافہ ہوتاجارہاہے۔
کرسمس جیسا تہواربھی لوگوں نے نظربندی میں گزاراہے۔ ذرا سوچوکشمیر میں پچھلے سولہ ماہ سے سفاک ہندو نے کرفیو کے ساتھ ساتھ دوسری ناروا پابندیاں لگارکھی ہیں۔ اگر یہ دنیا بروقت کشمیریوں کے دردکا مداوا کرتی توشائد رب تعالیٰ اس آفت میں مبتلانہ کرتا۔ اللہ اس انسانیت پررحم فرمائے کہ ہرملک میں عوام حکومتی گناہوں میں اکثر شریک نہیں ہوتی۔ یہ سب مکافات عمل اور قیامت کی نشانی ہے۔ فرنگیوں کے مظالم سے تاریخ لہو لہان ہے البتہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے۔ برطانیہ کیونکہ ایک رفاعی ریاست ہے جہاں عوام کے کھانے پینے رہائش اورمیڈیکل تمام سہولتوں کی ذمہ دار ہے۔ امیر ممالک وبا کی آفت سے کسی نہ کسی طور نبٹ رہے ہیں لیکن خدشہ ہے کرونا صورتیں بدل بدل کر پوری دنیا میں گردش کر رہا ہے۔ بلا شبہ کرونا بندوں پر آزمائش کی گھڑی ہے۔ قیامت کی نشانی ہے۔
دورہوئے سب اپنے کیا بیگانے کیا
ہے وہ کروناجس نے ہردل میں ڈرڈالا
میں تومروت پہلے ہی تنہا تھا بہت
اس ظالم نے اوربھی تنہاکرڈالا
نیا سال مبارک کہتے ہوئے دل میں عجیب وساوس پیدا ہو رہے ہیں۔ ننھے ننھے بچے ماسک پہنے ہوئے ہیں۔ بچوں پر ترس آتا ہے۔ آنے والا زمانہ ان کے لئے مزید مشکل نظر آرہا ہے۔ پچھلوں کے اعمال کا خمیازہ اگلی نسلیں بھگت رہی ہیں۔ اسلامی ممالک کا حال دیکھیں تو لگتا ہے کرونا کی آفت نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا، ماشا اللہ وہی منافقت وہی سیاست وہی حرص و طمع۔ یہودو نصاری نے ریاست اسرائیل کو قبول کرنے کی نوکری پر لگا رکھاہے جبکہ پوری دنیا فلسطین اور کشمیر پر مظالم کی سزا بھگت رہی ہے مگر کم لوگ ہی ان نشانیوں پر غورو فکر کرتے ہیں۔ اللہ خود فرماتا ہے کہ "کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور و فکر نہیں کیا؟ اللہ نے آسمانوں، زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کو کسی حقیقی مصلحت اور ایک مقررہ وقت تک کے لئے پیدا کیا ہے۔ مگر لوگوں میں سے اکثر اپنے پروردگار کی ملاقات سے منکر ہیں۔ (الروم) غور و فکر تو عبادت ہے، اللہ تعالیٰ نے اس بات پر متنبہ کرتے ہوئے فرمایا: ہ: کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ایسے ہو جاتے جن سے کچھ سمجھتے ہوتے اور کان ایسے جن سے وہ سن سکتے۔
بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، اندھے تو وہ دل ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ (الحج)کرونا وبا اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو غفلت سے بیدار کرنے کے لئے بھیجی ہے لیکن کچھ وہ ہیں جو اسے مانتے نہیں اور باقی دنیا وہ ہے جو مانتی تو ہے پر اسے ایک عارضی وبا سمجھ کر دل کو بہلا رہی ہے۔ غور و فکر کرنے کے لئے اللہ تعالی نے خصوصی طور پر اہل دانش اور عقل والوں کی بات کی ہے کیونکہ ایسے ہی لوگوں کو کائنات میں غور و فکر کا فائدہ ہو گا، یہی لوگ اس کائنات کو صرف بصارت سے ہی نہیں بلکہ بصیرت سے دیکھتے ہیں۔ اہل بصیرت ہی نیا سال کی آمد پر بھی ڈر اور خوف سے سجدہ ریز ہیں۔