یوم والد اور میرے والد (1)
"تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے".... انسانی زندگی کو اللہ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا، کوئی اس حقیقت کوتسلیم کرے نہ کرے۔ اللہ کو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ جو تسلیم کرتے ہیں، جو اِن نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں، اللہ اُنہیں مزید نوازتا ہے، .... ان ہی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت جسے اللہ کی سب سے بڑی رحمت بھی قرار دیا جاسکتا ہے وہ والدین ہیں، جن کے والدین حیات ہیں، اِس سے بڑی نعمت یارحمت اُن کے لیے کوئی اور ہوہی نہیں سکتی۔ جو اِس نعمت یارحمت سے محروم ہیں، وہ اگر رشتوں کی قدرکرنے والے ہیں، اُن کی زندگی کس قدر ازیت ناک ہوتی؟ یہ وہی جانتے ہیں، وہ بدترین بدقسمت لوگ ہیں جن کے والدین زندہ ہوتے ہیں اور وہ اُن کی قدر یا خدمت نہیں کرتے، ....ایسے لوگوں کو ضرور یہ سوچنا چاہیے زندگی میں کون سا بڑا گناہ یا خطا اُن سے ہوگئی جس کے نتیجے میں اللہ نے والدین کی خدمت کی توفیق اُنہیں نہیں بخشی؟ ، ....2011ءمیں میری والدہ اور 2015میں والد محترم اِس دنیا سے رخصت ہوگئے، والدین میں سے کوئی ایک (والد یا والدہ)رخصت ہوجائے، دوسرا اگر حیات ہو احساس محرومی میں اتنی شدت نہیں ہوتی، مگر جب دونوں رخصت ہو جاتے ہیں، اُس کے بعد رشتوں کی اہمیت کو سمجھنے والا کوئی انسان جس اذیت یا احساس محرومی کا شکار ہوتا ہے وہ ناقابل بیان ہے، ....اگلے روز فادرز ڈے پر مجھے رہ رہ کر اپنے والدین کی یادستارہی تھی، یہ نہیں کہ اُن کی یاد مجھے صرف مدرڈے یا فادر ڈے پرہی ستاتی ہے، میں صبح سویرے اُٹھنے کا عادی ہوں، صبح سے میں ملاقات نہ کروں میراسارا دن بورگزرتا ہے، میری اب کوئی صبح ایسی نہیں ہوتی جب کچھ لمحات ایک خاص کیفیت میں گزارنے کے بعد اپنے مرحوم والدین کو میں یاد نہیں کرتا۔ یا اُن کی مغفرت کی دعا نہیں کرتا۔
وہ جب حیات تھے صبح سے ملاقات کرنے سے پہلے میں اُن کے کمرے میں جاکر اُن سے مِلتا تھا، وہ مجھ سے پہلے اُٹھتے تھے، ابا جی مرحوم تو صبح سویرے جاگنے کے عمل کو باقاعدہ ایک عبادت قراردیتے تھے، وہ فرماتے تھے" اللہ نے انسان کو اشرف المخلوق" بنایا، کس قدر شرم کا مقام ہے جانور اور پرندے انسانوں سے پہلے جاگ جائیں، ....وہ کہتے تھے "آپ نے کبھی کسی طوطے، چڑیا، گدھے، گھوڑے، یا کتے کو دیر تک سوئے دیکھا ہے؟ سب صبح سویرے منہ اندھیرے اُٹھ کر اپنی اپنی "بولیوں " میں اللہ کو یاد کررہے ہوتے ہیں، .... ایک ہم ہیں، ہم میں سے اکثر اللہ کی اس رحمت یا نعمت کی قدر بھی نہیں کرتے کہ اللہ نے رات سونے کے لیے بنائی جس کے انسانی صحت کو بے شمار فائدے پہنچتے ہیں، اور دن جاگنے وکام کرنے کے لیے بنایا، اُس کے بھی انسانی صحت کو بے شمار فائدے پہنچتے ہیں، مذہبی حوالے سے اِس کی اہمیت کو ایک طرف رکھیں اب تو سائنسی حوالے سے بھی یہ ثابت ہوگئی ہے.... ہم جب راتوں کو جاگتے ہیں، یا دن کو دیرتک سوئے رہتے ہیں، یہ اصل میں قدرت یااللہ کے بنائے ہوئے نظام یا نعمتوں کی "کفرانی" ہے، .... اِس ضمن میں اگر کوئی مجبوری ہو وہ الگ بات ہے، مجبوری کی حالت میں تو نماز، روزے، حج کی چُھوٹ بھی اللہ انسان کو عطا فرماتا ہے، لیکن جان بوجھ کر کوئی قدرت کے اِس نظام سے پیچھے ہٹ رہا ہو اُس کی زندگی میں کبھی برکت پیدا نہیں ہوتی، .... میں نے صبح دیرتک سوئے رہنے کے اکثر عادیوں کی زندگیاں خصوصاً صحت شدید مشکلات کا شکار دیکھی ہیں، آپ نے صبح دیرتک سوئے رہنے کے عمل کو مکروہ قرار دیا ہے، آپ نے فرمایا"صبح دیرتک سوئے رہنے والوں کی زندگی اور رزق سے اللہ برکت اُٹھا لیتا ہے"....ابا جی کے بے شمار احسانات میں ایک احسان یہ بھی ہے اُنہوں نے ہم سب بہن بھائیوں کوصبح جلدی اُٹھنے کا عادی بنادیا، .... میں اپنے والد صاحب کو صرف فادر ڈے پر یاد نہیں کرتا، میں جب روزانہ فجر کی اذان کے ساتھ بیدار ہوتا ہوں وہ روزانہ مجھے یاد آتے ہیں، میں روزانہ اُن کی بخشش کے لیے دعا کرتا ہوں، ....مجھے اللہ نے اس بڑی نعمت سے بھی سرفراز فرمایا ہے میرے والدین کی قبریں میرے گھر کے بالکل پاس ہیں، میں روزانہ اُن کی قبروں پرحاضری دیتا ہوں، اُنہوں نے صبح پرندوں کو دانا ڈالنے کی جوروایت قائم کی تھی اُس میں اپنا حصہ ڈالتا ہوں، ہمارے بزرگوں کے ہاں پرندوں کو دانا ڈالنے کی روایت بڑی پرانی اور عام ہے، والد صاحب ایک اور کام کرتے تھے، وہ جب صبح پارک میں سیر کے لیے جاتے ایک لفافہ چینی کا بھر کر ساتھ لے جاتے۔ یہ چینی وہ پارک کے درختوں کے نیچے پھینک دیتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سینکڑوں چیونٹیاں جمع ہوجاتیں، میں اکثر اُن کے ساتھ جاتا تھا۔
میں یہ منظردیکھ کر بہت خوش ہوتا بلکہ اسے بہت انجوائے کرتا، ہرچیونٹی چینی کا ایک ایک دانہ اپنے منہ میں لے کر وہاں سے رخصت ہورہی ہوتی تھی، .... میں ازرہ مذاق ابوجی سے کہتا، "اگر اِن چیونٹیوں کو "شوگر" ہوئی اُس کے ذمہ دار آپ ہوں گے، ....جواباً وہ مسکرادیتے، .... میں اُن کی اِس مسکراہٹ کو بہت مِس کرتا ہوں، ....اولاد کو اپنے والدین کو عزت دینی چاہیے ہمارا معاملہ اس سے ذرا ہٹ کر یہ تھا میرے والدصاحب ہمیشہ بہت عزت دیتے تھے، وہ مجھے ہمیشہ "بٹ صاحب" کہہ کر پکارتے۔ میں اکثر اُن سے کہتا "ابوجی آپ مجھے "صاحب " کہہ کر نہ پکارا کریں، مجھے یہ اچھا نہیں لگتا"۔ وہ فرماتے "میرے پُتر نُوں اللہ نے "صاحب" بنایا اے، تے میں اوہنوں صاحب کیوں نہ کہواں؟ "....اِس کے علاوہ وہ یہ بھی فرماتے "جس شخص کی گھر میں عزت نہ ہو اُس کی باہر بھی نہیں ہوتی".... میں اِس حوالے سے خود کو خوش قسمت ترین انسان سمجھتا ہوں اللہ نے مجھ پر خاص ترس فرماتے ہوئے مجھے میری اوقات سے زیادہ عزت دینے کا سلسلہ میرے گھر سے شروع کیا، .... عزت کے معاملے میں ہمیشہ میں یہ دعا کرتا ہوں "اے میرے پاک پروردگار اتنی زیادہ عزت کا اب چسکا پڑ گیا ہے، اب اِس میں کمی نہ کرنا۔ اپنی رحمت کے مطابق اِس میں اضافہ ہی کرنا " ....(جاری ہے)